اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

علم الادیان اور علم الابدان

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ2؍مارچ1936ء کو صنعتی سکول کے افتتاح کے موقع پر خطاب میں فرمایا:
’’آج آپ لوگوں کو یہاں آنے کی اس لیے تکلیف دی گئی ہے کہ میرا منشا ہے آج ہم دعا کر کے اس صنعتی سکول کا افتتاح کریں جس کا اعلان میں پہلے کر چکا ہوں۔دنیا میں تعلیم اور صنعت وحرفت علیحدہ علیحدہ تنگ دائروں میں تقسیم ہو سکتی ہے ۔ورنہ بڑے بڑے دائرے تو صرف دو ہی ہیں۔ جیسا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔’’علم دو ہیں۔علم الادیان اور علم الابدان‘‘یعنی ایک علم وہ ہے جو دین کو نفع دیتا ہے اور دوسرا علم وہ ہے جو جسم کو نفع دیتا ہے۔لوگوں نے اس علم کے معنی طب کے بھی کیے ہیں۔بے شک طب بھی اس سے مراد ہو سکتی ہے۔لیکن اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر وہ علم جس کا مادیت کے ساتھ تعلق ہو۔پس رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے درحقیقت علم کی تعریف یہ فرمائی ہے کہ جو روح یا جسم کو فائدہ دے۔جو علم روح یا جسم کے لیے فائدہ مند نہیں وہ علم نہیں کھیل ہے اور اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔وہ علم جو روح کو نفع دے وہ تو اس وقت دین اسلام ہی ہے کیونکہ باقی دین اس قابل نہیں کہ وہ روح کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں۔روحانی لحاظ سے صحیح طور پر اور ہر ضرورت کے موقع پر نفع دینے والی چیز صرف اسلام ہے۔

آٹھ بنیادی پیشوں میں ہی سارے پیشے محصور ہیں

باقی رہا’’علم الابدان‘‘۔اس علم کا تعلق مختلف پیشوں سے ہے۔پیشے تو لاکھوں ہیں لیکن وہ چونکہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اس لیے بڑے بڑے پیشے چند ہی ہیں۔مثلاً ایک پیشہ وہ ہے جس سے انسان کی زندگی کا بڑا تعلق ہے اور وہ زراعت ہے۔زراعت کے ذریعہ غلہ وغیرہ اور ایسی چیزیں پیدا کی جاتی ہیں جن پرانسان کی زندگی کا دارومدار ہے۔اس کے بعد دوسری چیز جسم کو ڈھانکنے کا سوال ہے اس کے لیے کپڑا بُننے والے کی ضرورت ہے۔جس کو ہم جولاہاکہتے ہیں۔پھر پہننے کے لیے مختلف چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔مثلاً کپڑے کے علاوہ جرابیں،سویٹر وغیرہ۔یہ سب چیزیں اسی پیشہ کے اندر آجاتی ہیں اور وہ سب اشیاء جن کا کپڑے کے ساتھ تعلق ہوگا سب کی سب اس پیشہ سے متعلق ہوں گی۔تیسرا پیشہ معماری ہے کیونکہ عناصر میں جو طوفان پیدا ہوتے ہیں ان کے اثرات سے بچنے کے لے ضروری ہے کہ انسان مکان بنائے۔یا ایک دوسرے کے ضرر سے بچنے کے لیے مثلاً چوریا حملہ آور سے محفوظ رہنے کے لیے مکان ضروری ہے۔پس تیسری چیز معماری ہے۔ چوتھا پیشہ جو اصولی حیثیت رکھتا ہے وہ لوہاری کا کام ہے۔بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی انسان کو ضرورت پیش آتی ہے یا خود انسان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی حاجت ہوتی ہے اس کے لیے مثلاً گاڑیاں،موٹریں،سائیکل یا ریل گاڑیاں کام میں لائی جاتی ہیں۔ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے اور انسانی کاموں میں سہولت پیدا کرنے کے لیے یہ دوپیشے ہیں۔ایک لوہار کا کام دوسرا ترکھان کا کام۔یہ زراعت میں مفید ہونے کے علاوہ باقی بہت سے کاموں کے لیے بھی نہایت ضروری ہیں اورانسان کے عام مشاغل کو بھی سہل بناتے ہیں۔پھر’’علم الابدان‘‘میں وہ چیز بھی آجاتی ہے جس کو لوگوں نے مقدم رکھا ہے۔یعنی علم کیمیا اور علم طب،علم طب بھی انسانی علاج کوسہل کر دینے والی چیز ہے توگویا زراعت، معماری، لوہاری، نجاری،علم کیمیا،علم طب اور علم طب دراصل ایک لحاظ سے علم کیمیا ہی کی ایک شاخ ہے اور کپڑا بننے کا کام ۔یہ سات پیشے ہوئے ۔باقی تمام پیشے انہی کے اندر آجاتے ہیں۔مثلاً دوسرے کام پینٹنگ وغیرہ معماری کی بھی ایک شاخ ہے اور علم کیمیا کی بھی۔چمڑے کا کام اس کے علاوہ ہے ۔تو اسے ملا کر گویاآٹھ پیشے ہوئے۔ان آٹھ پیشوں کو جو قوم جان لیتی ہے وہ اپنی ضروریات کے لیے دوسروں کی محتاج نہیں رہتی بشرطیکہ وہ ان پیشوں کو اس رنگ میں جانتی ہو جیسا کہ جاننے کا حق ہے۔یہ نہیں کہ ایک کام سیکھ کر یہ سمجھ لیا جائے کہ بس اب کام ختم ہو گیااور اب اس میں ترقی کرنے کی ضرورت نہیں۔
وٹرنری کاعلم یعنی حیوانوں اور جانوروں وغیرہ کا پالنا اور ان کا علاج بھی’’علم الابدان‘‘ہی سے تعلق رکھتاہے ۔یہ علم اور نرسنگ وغیرہ کا علم طب کے نیچے آجائیں گے۔پس جتنے بھی علوم ہیں وہ سب انہی آٹھ پیشوں کے اندر محصور ہو جاتے ہیں کیونکہ ان میں سے بعض یا تو زراعت سے تعلق رکھتے ہوں گے۔یا چمڑے کے کام سے تعلق رکھتے ہوں گے۔یا معماری کے کام سے تعلق رکھتے ہوں گے۔یا نجاری کے کام سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ان چیزوں سے باہر اور شاید ہی کوئی چیز ہو۔اگر یہ چیزیں کوئی قوم مضبوطی سے حاصل کرے تو وہ دوسری قوموں سے آزاد ہو جاتی ہے۔ان کا ممد پیشہ بے شک تجارت ہے مگر وہ تابع پیشہ ہے۔حقیقی پیشہ نہیں اور اپنی ذات میں وہ کوئی الگ نہیں کیونکہ وہ انسان کی بنائی ہوئی چیزوں کو ہی لوگوں تک پہنچاتاہے۔لیکن دولت کے لحاظ سے وہ پیشہ ان سے کم نہیں ان سے زیادہ ہی اہمیت رکھتا ہے اور وہ اس لیے کہ مالی لحاظ سے اس کو ان پیشوں پر فوقیت حاصل ہے۔سوائے اس کے کہ پیشہ ور اپنے ساتھ تجارت کو بھی شامل کر لیں۔جب تجارت ساتھ شامل ہو جائے تو کام بہت وسیع ہو جاتاہے۔

ہم میں تجارت کی کمی ہے

میں نے تحریک جدید کے اس پہلو پر غور کرتے ہوئے یہ معلوم کیا ہے کہ ہماری جماعت میں کن پیشوں کی کمی ہے اور کون کون سے پیشے ایسے ہیں جنہیں انفرادی یا جماعتی طور پر ہمیں لوگوں کو سکھانے کی ضرورت ہے۔زراعت کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ ہماری جماعت میں کافی لوگ ایسے ہیں جو زراعت کا کام کرتے ہیں۔تجارت کے متعلق میں نے غور کیا اور میں نے دیکھا کہ اگرچہ اس کی ہماری جماعت میں کمی ہے لیکن چونکہ ہم ابھی اس کام میں فوری ہاتھ ڈالنے کے قابل نہیں تھے اس لیے میں نے چند مبلغوں کو تیار کیا کہ وہ بعض ایسی نئی تجارتی چیزیں دریافت کریں جنہیں ہم ہاتھ میں لے کر ان کی تجارت کر سکتے ہیں۔ جو تجارتیں پہلے قائم شدہ ہیں ان میں ہمارا داخل ہونا،کروڑوں روپیہ کے سرمایہ کی تجارتوں کے مقابل ہمارا کھڑا ہونا نا ممکن ہے۔اس لیے میں نے یہ تجویز کی کہ نئی تجارتی اشیاء دریافت کی جائیں۔

تجارتوں میں سے واسطوں کو اڑانے کی ضرورت ہے

اس ضمن میں میں نے دیکھا کہ تجارتوں میں جو واسطے پائے جاتے ہیں ان کو اُڑانے کی ضرورت ہے۔ممکن ہے بعض دوست واسطوں کا مطلب نہ سمجھیں اس لیے میں اس کی تشریح کر دیتاہوں۔واسطے کا مطلب یہ ہے کہ اصل خریدار تک پہنچنے کے لیے ایک چیز کئی ایک ہاتھوں میں سے گزر کر آتی ہے۔مثلاًایک چیز انگلستان میں پیدا ہوتی ہے اور فرض کرو کہ وہ چین میں جا کر بِکتی ہے تو بسا اوقات ایساہوتا ہے کہ اسے پہلے ایک ملک نے خریدا،اس سے پھر دوسرے نے اور پھر تیسرے اور چوتھے نے، یہاں تک کہ وہ چیز کئی ملکوں میں سے ہوتی ہوئی چین تک جا پہنچی۔جنگ کے دنوں میں اس راز کا انکشاف ہواتھاکہ وہ دوائیاں جو یہاں آکر بِکتی تھیں و ہ دراصل جرمنی میں بنائی جاتی تھیں اور ان پر صرف انگریزی ٹھپہ لگتا تھا اور ہندوستان میں لوگ انہیں صرف انگریزی دوا تصور کر کے خریدتے تھے۔ہندوستانیوں کو اس بات کا علم نہ تھا۔انگریز انہیں جرمنی سے خرید کر ہندوستانیوں سے ان کی بڑی بڑی قیمتیں لیتے تھے اور بہت کم لوگ اس راز سے آگاہ تھے باقی سارے لوگ ناواقف تھے۔جب جنگ شروع ہوئی تو دوائیاں نایاب ہو گئیں اور لوگ اس بات سے حیران تھے لیکن پھر یہ راز کھلا کہ جرمنی کی دوائیاں انگلستان میں سے ہوتی ہوئی ہندوستان آتی تھیں۔
پس واسطے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ملک کی اشیاء اور ملکوں میں سے گزر کر اصلی حاجت مند کے پاس پہنچتی ہیں۔اس کے متعلق یہ پتہ لگایا جائے کہ کس ملک کی کونسی چیز کس کس ملک سے ہو کر آتی ہے۔ یہ معلوم کرنے کے بعد جو چیزمثلاً جرمنی میں بنتی ہے،اس کے لیے اگر کوئی شخص جرمنی جا کر کہے کہ تم اپنی فلاں چیز براہ راست ہمیں بھیجو اور اس طرح کی ایک دکان کھول لی جائے تو براہ راست تعلق قائم ہونے کی وجہ سے بیچ کا نفع جو دوسرے لوگ اٹھا رہے ہوں گے وہ نہیں اٹھائیں گے اور اس طرح وہ چیز سستی مل سکے گی اور نفع اپنے ہاتھوں میں رہے گا۔میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ سات سات اور آٹھ آٹھ واسطے درمیان میں پڑجاتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیوں کوئی چیز سات یا آٹھ ہاتھوں میں سے گزر کر آئے۔جتنے واسطے اُڑائے جاسکیں اتنی ہی کم قیمت دینی پڑے گی۔
پس اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ وہ چیز براہ راست ہمیں پہنچے گی اور دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ اس پر کم خرچ آئے گا اور واسطوں کے اڑجانے سے ہم تھوڑے سرمایہ سے بڑے بڑے سرمایہ داروں کا مقابلہ کر سکیں گے۔مگر یہ تجارت قادیان میں نہیں ہو گی کیونکہ یہاں کوئی منڈی نہیں ہے۔یہ کلکتہ، دہلی یا دوسرے بڑے شہروں میں قائم ہو سکتی ہے۔

کپڑا بُننے کا کام

باقی پیشوں میں سے جو انسان کی ضروریات مہیا کرتے ہیں،کپڑا بُننے کا کام بہت بڑے سرمایہ کو چاہتاہے اور یہ شروع سے ہی لاکھوں روپیہ والے لوگوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ اس لیے فوراً اس میں ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا۔اس کے لیے ہمارے پاس ایکNUCLEUSیعنی بیج ہے اور وہ ہوزری ہے۔فی الحال جُرابیں وغیرہ بنانے کا کام جاری ہے۔اس کے ساتھ ہم آہستہ آہستہ دوسرے کپڑے بنانے کا کام بھی شروع کر دیں گے۔کپڑے کے لیے کھڈیاں وغیرہ بھی استعمال کی جاتی ہیں لیکن ابھی تک کھڈیاں اتنی مفید ثابت نہیں ہوئیں۔ایک دو دفعہ لدھیانہ سے مشینیں منگا کر دیکھی ہیں لیکن ان کے ذریعہ جو کام کیا گیا وہ زیادہ مفید ثابت نہیں ہوا۔اگر آئندہ مفید ثابت ہو تو وہ کام بھی انشاء اﷲ شروع کر دیا جائے گا۔

علمِ طب

اب رہ گیا طب کا علم۔طب کے متعلق باقاعدہ طور پر کام شروع نہیں کیا گیا۔لیکن مبلغ جو باہر جاتے ہیں انہیں طب پڑھانے کا انتظام کیا جاتاہے۔اگر اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی تو ایک الگ طبی سکول جاری کر دیا جائے گا یا مدرسہ احمدیہ کی ایک شاخ کھول دی جائے گی اور یہ کام خصوصاً اس لیے شروع کیا جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس سے تعلق تھااور حضرت خلیفہ اول رضی اﷲ عنہ تو ایک بلند پایہ طبیب بھی تھے۔غرض طب سلسلہ احمدیہ سے خاص تعلق رکھتی ہے۔ بچپن میں عموماً میری صحت خراب رہتی تھی۔ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تم قرآن شریف اور بخاری کا ترجمہ اور طب پڑھ لو۔چنانچہ میں نے طب کی تین چار کتابیں پڑھیں بھی۔تو طب کے متعلق میرا خیال ہے کہ اسے جاری کیاجائے۔فی الحال مبلغین کو طب پڑھانے کا انتظام کیا گیا ہے۔
اب پانچ پیشے رہ جاتے ہیں۔کیمیا،چمڑے کا کام،لکڑی کا کام،لوہاری اور معماری۔معماری کے کام میں فی الحال میں نے دخل دینا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ معماری کے کام کے لیے خاص انتظام کی ضرورت پیش نہیں آتی۔لوگ اپنے اپنے طور پر اسے سیکھ سکتے ہیں۔لیکن اگر موقع ملا تو ہم اسے بھی نظر انداز نہیں کریں گے۔

دارالصناعت میں سکھائے جانے والے کام

باقی رہ گئے چار کام لوہاری،نجاری،چمڑے کا کام اور علم کیمیا۔یہ سکول جس کے افتتاح کے لیے آج ہم جمع ہوئے ہیں اس میں تین کام شروع کیے جا ئیں گے۔ابھی صرف دو جماعتیں کھولنے کا انتظام کیا گیا ہے۔لوہاری اور نجاری،چمڑے کے کام کی سکیم ابھی زیر غور ہے۔کیمیا کے کام مثلاً ادویہ سازی کے متعلق بھی میں مشورہ کر رہا ہوں اور میرا ارادہ ہے کہ انشاء اﷲ اس کام کو بھی شروع کر دیا جائے۔اس کام کی ایک قسم تو شروع کی ہوئی ہے اور وہ گلاس فیکٹری ہے۔لیکن ایک خاص شکل میں محدود ہے۔کیمیا سازی میں پینٹنگ،پالش وغیرہ سب چیزیں آ جاتی ہیں۔میں اس کے متعلق ماہر فن لوگوں سے مشورہ کر رہا ہوں۔اگر اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی تو اس میں بھی ہاتھ ڈالا جائے گا۔باقی تین کام جو ہم شروع کرنے والے ہیں اور ان کے ساتھ کپڑا بُننے کا کام بھی لگا دیا جائے تو چار ہو جاتے ہیں،نہایت ضروری ہیں۔مگر بدقسمتی سے یہ کام ہندوستان میں ذلیل سمجھے جاتے ہیں۔جب کسی ملک کے زوال کے دن آتے ہیں تو لوگوں کی نیتیں بھی بدل جاتی ہیں۔اگر کسی سے کہہ دیا جائے کہ یہ موچی ہے تو لوگ سمجھیں گے کہ وہ ذلیل کام کرنے والا ہے او روہ خود بھی اس پیشے کو ذلیل سمجھے گا اور اسے چھوڑ دینے کی خواہش کرے گا۔لوہار اورترکھان کے پیشے کو بھی ذلیل سمجھا جاتاہے۔گو وہ موچی کے پیشے کی طرح بدنام نہیں اورگو لوگ انہیں اتنا حقیر نہ سمجھتے ہوں مگر وہ کبھی پسند نہ کریں گے کہ ہمارے بچے لوہار یا ترکھان بنیں یا وہ جولاہے کا کام سیکھیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پیشوں کی آمدنیاں محدود ہو گئی ہیں۔ جب کسی پیشہ میں نفع کم ہو جائے تو قدرتی طور پر اس کی قدر بھی کم ہو جاتی ہے۔مثلاً تمہیں ہندوستان میں ایسے طبیب بھی ملیں گے جن کی ماہوارآمدنی پانچ چھ روپیہ سے زیادہ نہیں ہوگی لیکن ایسے طبیب بھی ملیں گے جن کی آمدنی پانچ چھ ہزار روپیہ ماہوار ہوگی۔اگر سارے طبیب پانچ یا چھ ہزار روپیہ آمدنی کے ہوں تو طب کی بھی بہت کم قدر ہو جائے۔چونکہ لوہارے اور ترکھانے کی آمدنی بھی کم اور محدود رہ گئی ہے اس لیے لوگوں نے ان پیشوں کو ذلیل سمجھنا شروع کر دیا ہے۔تجارت میں چونکہ آمد زیادہ ہوتی ہے اس لیے اس کی قدر زیادہ کی جاتی ہے۔

یورپ کی ترقی کی اصل وجہ

لیکن اگر ہم بھی ان تمام پیشوں کو اسی طریق پر چلاتے جس طریق پر انہیں یورپ میں چلایا جاتاہے تو یہاں بھی ان کی ویسی ہی قدر کی جاتی جیسی کہ وہاں کی جاتی ہے۔اب دیکھ لو تمام کپڑا یورپ سے آتا ہے جو یا تو لنکا شائر میں بنتا ہے یا بیلجیئم میں ۔بیان کیا جاتاہے کہ ہر سال ساٹھ کروڑ روپے کا کپڑا باہر سے ہندوستان میں آتاہے۔ظاہر ہے یہ سب کام جولاہے کرتے ہیں۔ چاہے کسی قسم کا کپڑا بُنا جائے،گرم کپڑا ہو یا چھینٹ ہو یا کھدر،یہ کام جولاہے کا کام ہی کہلائے گا صرف کھدر بُننے کا کام کسی کوجولاہا نہیں بناتا بلکہ کپڑا بُننے کا کام جولاہابناتاہے۔پھر لوہارے کے تمام کاموں کی اشیاء یورپ سے آتی ہیں۔مثلاًریل گاڑی کا سامان،کپڑے سینے کی مشینیں، آٹا پیسنے کی مشینیں،روئی اور بنولے کی مشینیں،موٹر،بائیسکل،مختلف پُرزے سب یورپ سے آرہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آہستہ آہستہ یورپ والوں نے سرمایہ داری کے ذریعہ سارا کام اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور اب تو یہ حالت ہے کہ جب ہمارا کپڑا پھٹ جائے اوراسے سینے کی ضروت ہو تو ہمیں سوئی کے لیے بھی یورپ کا دست نگر ہونا پڑتاہے۔بچپن میں مجھے یاد ہے کہ ہندوستان کی بنی ہوئی سوئیاں جو کچی سوئیاں کہلاتی تھیں استعمال کی جاتی تھیں۔مگر اب وہ کہیں نظر نہیں آتیں۔بات یہ ہے کہ جن چیزوں کے متعلق یورپ والوں نے دیکھا کہ ہندوستان میں استعمال ہوتی ہیں،انہوں نے وہ چیزیں مشین کے ذریعہ بنانی شروع کر دیں۔اب تو مشینوں نے کھدر بھی بنا دیا ہے اور وہ کھدر کریپ کہلاتا ہے ۔یورپ والوں نے کہا اگر ہندوستانی کھدر پہننے کے لیے ہی تیار ہیں تو ہم مشینوں سے کھدرہی تیار کر دیں گے۔ پھر نجاری کا کام ہے اس میں بھی اعلیٰ فن کے کام ولایت سے ہی آتے ہیں۔بڑے بڑے گھروں میں دیکھ لو کرسیاں اور کوچیں یورپ کی بنی ہوئی استعمال کی جاتی ہیں اور بعض کوچوں کی قیمت کئی کئی سو تک ہوتی ہے۔اسی طرح عمارتی کاموں میں بھی بعض ٹکڑے بنے بنائے ولایت سے آتے ہیں مگر یہ پیشہ پھر بھی ایک حد تک محفوظ رہا ہے۔باقی رہا چمڑے کا کام،اس کا بیشتر حصہ ولایت چلا گیا تھا مگر اب واپس لوٹ رہا ہے۔پہلے تمام چیزیں چمڑے کی ولایت سے بن کر آتی تھیں مگر اب ہندوستان کے بعض شہروں مثلاً کانپور وغیرہ میں چمڑے کی بہت اشیاء تیارکی جاتی ہیں۔تا ہم چمڑے کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو یورپ سے تیار ہو کر ہندوستان آتی ہیں اور یورپ والے ان کے ذریعہ روپیہ کمارہے ہیں۔یورپ میں جوتیاں بنانے والے ہمارے ہاں موچیوں کی طرح نہیں سمجھے جاتے بلکہ ان کی وہی قدر و منزلت ہوتی ہے جو وہاں بڑے بڑے لارڈوں کی ہوتی ہے بلکہ وہاں تو ایسے لوہار یا بُوٹ میکر ہیں جو لارڈہیں اور ان کی بہت عزت کی جاتی ہے۔ان میں سے جب کوئی ہندوستان آتاہے تو وائسرائے کا مہمان ہوتاہے اور راجے ،نواب بھی اس کے آگے پیچھے پھرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی آمدنیوں کو محدود نہیں رکھا بلکہ انہیں غیر محدود بنا لیاہے اوران کے پیشے اپنی غیر محدود آمدنیوں اور وسیع پیمانے پر ہونے کی وجہ سے معزز تصور ہو رہے ہیں۔مگر ہندوستان میں وہی پیشے قلیل آمدنیوں کی وجہ سے ذلیل سمجھے جاتے ہیں۔

پیشہ ور کسی پیشہ کو اپنی ذاتی جائیداد نہ تصور کریں

یہا ں ایک اور عجیب رواج بھی ہے اور دراصل ہندوستانیوں کو اسی کی سزا مل رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک پیشہ ور انسان اپنے پیشہ کوذاتی جائیداد تصور کرتاہے اور چاہتاہے کہ صرف اپنے بیٹے کو وہ پیشہ سکھا دے،کسی دوسرے کو وہ سکھانا پسند نہیں کرتا۔اسلام نے اسے قطعا ًپسند نہیں کیاکہ کوئی شخص کسی کا م کو اپنی ذاتی جائیدا د بنا کر بیٹھ جائے۔یورپ میں ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی خاندان سارے کا سارا بوٹ بنانے والا نہیں ہو گا۔اگر باپ بوٹ میکر ہو گا تو بیٹا کیمیا کے علم کا ماہر ہوگا۔پوتے کپڑا بنانے کا کام کرتے ہوں گے اور پڑپوتے کسی فرم میں حصہ دار ہوں گے۔غرض ایک ہی کام نہیں ہو گا جس میں وہ سارے کے سارے لگے ہوئے ہوں گے مگر ہمارے ملک نے سمجھ رکھا ہے کہ پیشے ذاتی جائیداد ہوتے ہیں اور وہ اپنے خاندان تک ہی محدود رہنے چاہییں کسی اور کو نہیں سکھانے چاہییں۔اس کے دو بہت بڑے نقصان یہ ہیں۔ ایک انفرادی اور دوسرا قومی۔قومی نقصان تو یہ ہے کہ اگر بیٹا جب لائق نہ ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ فن گِر جائے گا اور اس طرح قوم کو نقصان پہنچے گا۔دوسرا نقصان یہ ہے کہ باپ سے بیٹے کو بیٹے سے پوتے کو جب وہ کام ورثہ میں ملے گا تو ان کے نام کے ساتھ ایک اور چیز جسے پنجابی میں اَل کہتے ہیں لگ جائے گی اور وہ اس کی قومیت بن جائے گی حالانکہ اگر آزادانہ پیشہ اختیار کرنے کا طریق رائج ہو تو بالکل ممکن تھا کہ ایک درزی کا کام کرنے والے کا بیٹا اچھا لوہار یا اچھا نجار یا اعلیٰ معمار بن سکتا۔پس اس طریق کا انفرادی طورپر بھی نقصان ہوا اور قومی طورپر بھی۔یورپ میں لوگوں نے اپنے آپ کو ان نقصانات سے بچالیا ہے۔نہ ان کے نام کے ساتھ کوئی اَل لگی اور نہ ان کے پیشے ہی محدود رہے کیونکہ انہوں نے ایک ہی کام پر جمے رہنا پسند نہیں کیا بلکہ کام تبدیل کرتے گئے اور انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ تبدیلی چاہتی ہے۔مرد کم تبدیلی کا خواہاں ہوتا ہے مگر عورت زیادہ تبدیلی چاہتی ہے۔گھروں میں دیکھ لو جب کبھی عورتیں صفائی کرتی ہیں تو چیزوں کو اِدھر سے اُدھر رکھ کر نقشہ بدل دیتی ہیں اور بالکل بِلاوجہ ایسا کرتی ہیں۔پہلے اگر چارپائی مشرقی دیوار کے ساتھ ہو گی تو پھر مغربی دیوار کے ساتھ کر دی جائے گی،کبھی جنوبی دیوار کے ساتھ لگا دی جائے گی اور کبھی مشرقی دیوار کے ساتھ رکھ دی جائے گی۔یہ صرف نظارے کی تبدیلی ہوتی ہے۔بہر حال تبدیلی ترقی کے لیے ضروری چیز ہے گو تبدیلی میں تنزل کا پہلو بھی ہوتاہے مگر اس میں ترقی بھی ہوتی ہے۔اﷲ تعالیٰ نے انسان میں یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ ایک حالت میں رہنا پسند نہیں کرتا بلکہ تغیر چاہتاہے اور کام کی تبدیلی کے ساتھ بھی بہت سے خاندان بڑھتے اور گھٹتے ہیں۔
غرض ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اس صنعتی سکول کی ابتدا کی ہے۔میں نے بتایا ہے کہ ہندوستان کے تنزل اور اس کی تباہی کی ایک وجہ ان پیشوں کا ہمارے ہاتھوں سے نکل جانا ہے اور یورپ کی ترقی کی وجہ ان پیشوں کا ان کے ہاتھ میں چلا جانا ہے۔پھر میرے مدنظر یہ بات بھی ہے کہ اس طرح بے کاری کو دور کرنے کی بھی کوشش کی جائے مگر میں فوری طورپر اس کام کو وسعت نہیں دے سکتا۔کیونکہ ہمارے پاس سرمایہ کم ہے۔گو میری خواہش یہی ہے کہ ہربیکار کو کام پر لگایا جائے۔مگر عقل چاہتی ہے کہ کام کو اس طریق سے نہ چلایا جائے کہ چند دن جاری رہ سکے اور پھر ختم ہو جائے بلکہ ایسے طریق سے قدم اُٹھایاجائے کہ جس سے ہمارے کام کو دوام نصیب ہو۔

دارالصناعت میں شرائط داخلہ نیز طریق تعلیم

فی الحال مَیں نے یہ سکیم بنائی ہے کہ ایک استاد کے ساتھ تین شاگرد ہوں۔اس طرح کام چلانا سہل ہو گا۔ہر تیسرے ماہ طالب علموں کا انتخاب ہوا کرے گا اور مزید تین تین لڑکوں کو لے کر کا م پر لگا دیا جائے گا۔اس طرح سال میں ہر ایک استاد کے پاس بارہ طالب علم ہو جائیں گے اور پھر سال بھر کے سیکھے ہوئے لڑکے نئے داخل ہونے والے لڑکوں کو کام سکھا بھی سکیں گے۔اس سلسلہ میں جو مشکلات پیدا ہوں گی وہ تو بعد میں ہی دیکھنے میں آئیں گی مگر اصولی طورپر یہ بات مدنظر رکھی گئی ہے کہ اس طرح آہستہ آہستہ کام کو بڑھا یا جائے ۔
میری تجویز یہ بھی ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ بھی اس کام میں حصہ لیں اور وہ اس طرح کہ اس سرمایہ کے جو اس پر لگایا جائے حصص خریدیں چنانچہ اس میں تجارتی طورپر حصہ لینے کے لیے میں نے جماعت کے لیے گنجائش رکھی ہے اس میں سے پچاس فیصدی تک سرمایہ کے حصے خریدے جا سکتے ہیں ۔
میں نے اس سکول کے متعلق اصول انتخاب میں یہ بات مدنظر رکھی ہے کہ یتامیٰ کو مقدم رکھا جائے اور ان کی نسبت دوسرے لڑکوں کے انتخاب کی شرائط کڑی ہوں۔مثلاً پہلی شرط ان کے لیے یہ رکھی گئی ہے کہ وہ کم سے کم پرائمری پاس ہوں مگر یتیموں کے لیے پرائمری پاس ہونے کی شرط نہیں گو انہیں بھی اگر وہ اَن پڑھ ہوں تعلیم دی جائے گی پھر بھی یہ شرط ہے کہ ان کو بورڈنگ میں رکھا جائے گا اور پانچ سال انہیں یہاں رہنا ہو گاتین سال تک ان پر ہم خرچ کریں گے باقی دو سال میں اس آمد پر جو اُن کی تیار کی ہو ئی اشیاء سے حاصل ہو گی ان کا خرچ چلے گا۔پہلے تین سال تک استادوں کی تنخواہیں بورڈنگ کا خرچ اور کپڑے وغیرہ کا خرچ تحریک جدید کے ذمہ ہو گا۔اس کے علاوہ ہم نے دو سال اس لیے زائد رکھے ہیں تاکہ وہ سلسلہ کا کام کریں اور اس قرض کا کچھ حصہ جو ان پر خرچ ہوا ہو ادا کرسکیں۔اگر کوئی لڑکا بیچ میں ہی کام چھوڑ کر چلا جائے گا تو اسے وہ روپیہ واپس دینا ہو گا جو اس پر خرچ ہوا۔سوائے اس کے کہ کوئی اشد معذوری اسے پیش آجائے مثلاً کوئی آنکھوں سے اندھا ہو جائے یا کسی طرح کام کے ناقابل ہو جائے کیونکہ ایسے کاموں میں اس قسم کے حادثات بھی ہوجانے کا اندیشہ ہوا کرتاہے۔
پس ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جو لڑکے داخل ہونا چاہئیں وہی داخل ہو سکتے ہیں۔ یتامیٰ کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ ان کو بغیر کسی شرط کے لے لیا گیا ہے مگر دوسروں کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ کم ازکم پرائمری پاس ہوں۔آئندہ آہستہ آہستہ شرائط کڑی کر دی جائیں گی۔مثلاً پھر یہ شرط رکھ دی جائے گی کہ مڈل پاس طالب علم لیے جائیں اور مڈل تک کی تعلیم تو مجلس مشاورت میں ہماری جماعت کے لیے لازمی تعلیم قرار پا چکی ہے پس جب مڈل تک کی تعلیم ہر احمدی کے لیے لازمی ہے تو بعد میں تعلیم کے اسی معیار کے لحاظ سے طالب علم سکول میں لیے جائیں گے۔علاوہ ازیں سکول کے استادوں کو دوسرے مدرسوں کے لڑکوں کو کام سکھانے پر لگا یا جائے گا۔یعنی دوسرے مدرسوں کے طالب علموں کو بھی اسی قسم کے کام سکھائے جائیں گے۔مثلاً ہائی سکول یا مدرسہ احمدیہ کے جو لڑکے چاہیں گے ان کے لیے بھی انتظام کر لیا جائے گا مگر ان کے لیے ہفتہ میں صرف دو روز اس کام کے لیے ہوں گے کیونکہ انہیں اپنے کورس کی اور بھی پڑھائی کرنی پڑتی ہے۔ بیشک اس طرح وہ بہت دیر میں کام سیکھ سکیں گے اور بعض دفعہ ان کو چھٹیوں میں یہ کام کرنا پڑے گا مثلاً گرمیوں کی رخصتوں میں ان کو اورکہیں جانے کی اجازت نہ ہو گی بلکہ انہیں یہ کام سکھایا جائے گا۔

پیشوں کے متعلق حقارت مٹائی جائے

بہر حال جب تک ہم پیشوں کے ساتھ تمام لوگوں کی دلچسپی نہ پیدا کر دیں گے اس وقت تک پیشہ وروں کو ذلیل سمجھنے کی خرابی دور نہ ہوگی۔جب سارے لوگ مختلف پیشے جانتے ہوں اور ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی آدمی اس قسم کا کام کرتا ہوتو پھر پیشوں کے متعلق حقارت لوگوں کے دلوں سے مٹ جائے گی۔ یورپ میں بڑے سے بڑے لوگ بھی اس قسم کے کاموں کو حقیر نہیں سمجھتے بلکہ وہ خود کسی نہ کسی پیشہ کے ماہر ہوتے ہیں۔چنانچہ فرانس کا ایک پریذیڈنٹ تھا جس کے متعلق لکھا ہے کہ جب کبھی اسے اپنے کام سے فرصت ملتی تو وہ دھونکنی پر جا کر کام شروع کر دیتا۔
پس اگر دوسرے سکولوں کی خواہش ہوئی تو ان کے لیے بھی انتظام کر لیا جائے گا۔ اس کے بعد میں دوستوں سے خواہش کر تا ہوں کہ وہ مل کر دعا کریں کہ اس ابتدا کو جو بظاہر چھوٹی اور ہیچ معلوم ہوتی ہے اﷲ تعالیٰ ترقی کی منازل تک پہنچائے اور ہمارے کام کرنے والے لوگ اس رنگ میں کام کریں کہ جہاں وہ دنیا کے لیے بہتری کا موجب ہوں وہاں دین کے لیے بھی بہتری کا باعث بنیں۔میں استادوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ لڑکوں میں یہ روح پیدا کریں کہ دنیا کے ساتھ انہیں دین بھی حاصل کرنا ہے۔گویا وہ ’’دست با کار اور دل بایار‘‘کے مصداق بنیں۔شروع سے ہی ان کے اندر یہ روح پیدا کی جائے کہ سلسلہ کے لیے ہر قسم کی قربانی کرنا اپنے نفسوں کو مارنا اور اپنے پیشوں کو صرف ذاتی مفاد تک محدود نہ رکھنا بلکہ ان سے سلسلہ کو بھی فائدہ پہنچانا ان کا مقصد ہے۔اگر یہ روح ان کے اندر پیدا ہو جائے کہ انہوں نے اپنی اپنی صنعتوں میں غیر ممالک کے صنّاعوں کا مقابلہ کرنا ہے اور ادھر نیکی اور تقویٰ پر بھی قائم رہنا ہے تب یہ لوگ ہمارے لیے مفید ہو سکتے ہیں ورنہ روٹی کمانے والے تو دنیا میں بہت لوگ ہیں ۔ہماری یہ غرض نہیں کہ صرف روٹی کمانے والے پیدا کیے جائیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ ایسے ہوں جو دنیا کے ساتھ ساتھ دین کو بھی حاصل کرنے والے ہوں۔ وہ اسلام کی کھوئی ہوئی شوکت کو واپس لانے میں ممد ہوں اور دوسروں کو اس بات کا سبق دے سکیں کہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی ایک شخص حقیقی مومن ہو سکتاہے اور دنیاکمانے سے اس کا ایمان کم نہیں ہوتا بلکہ ترقی کرتاہے۔‘‘

(ہر پیشہ سیکھنے کی کوشش کی جائے۔انوار العلوم جلد14صفحہ205تا215)


Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے