اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

صنعت و حرفت کے کام

حضور انوررضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ 12؍اپریل1936ء کو مجلس مشاورت میں فرمایا:
’’پہلی بات یہ ہے کہ میں نے کل دوستوں کو بتایا تھا کہ جماعت کے لوگوں میں سے بیکاری کو دور کر کے جماعت کی مالی حالت مضبوط کرنے کے لیے نئے کچھ کام یہاں جاری کیے گئے ہیں ۔ان کاموں کے جاری کرنے میں یہ بات مد نظر ہے کہ ہم آہستہ آہستہ اس مقام پر پہنچ جائیں کہ اپنی سار ی ضرورتیں خود پوری کر سکیں اور دوسری اقوام کی ضرورتیں پوری کرنے میں بھی حصہ لے سکیں۔اس وقت غیر ہندوستانی طاقتیں ہندوستان میں اتنی قوت پکڑ چکی ہیں کہ تجارتی طور پر ہمارا ملک ان کے مقابلہ میں عاجز آرہا ہے اور یہ بات انسانی طاقت سے با لا معلوم ہوتی ہے کہ کوئی جماعت اس کی اصلاح کی کوشش کرے کہ ہندوستانی تجارت و صنعت دوسری قوموں کی تجارت اور صنعت کے مقا بلہ میں ٹھہر سکے لیکن ہماری جماعت کو اﷲ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے دوسری اقوام پر ایک فضیلت حاصل ہے اور وہ یہ کہ یہ منظم جما عت ہے ۔ایک ہاتھ پر اس نے بیعت کی ہوئی ہے ۔ہماری جماعت میں بہت سے مخلص ہیں لیکن سب کے سب نے یہ اقرار کیا ہوا ہے کہ ہر قسم کے احکام کی فرمانبرداری کریں گے مگر سب سے زیادہ مشکلات بھی ہماری جماعت کے لیے ہی ہیں اور جتنی روکیں ہمارے رستے میں حائل ہیں کسی اور کے رستہ میں اتنی نہیں ۔کہتے ہیں

’’نزلہ بر عضو ضعیف مے ریزد‘‘

ہم چونکہ کمزور ہیں اس لیے دوسری طاقتیں ہمارے خلاف جتھہ کر کے ہمارے خلاف کھڑی ہیں اور ہمیں تجارت میں، ملازمت میں، صنعت و حرفت میں سخت دقتیں پیش آرہی ہیں۔اہل ہند میں سے مسلمان گرے ہوئے ہیں اور ہم مسلمانوں میں سے سب سے زیادہ مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ دوسری قوموں نے مسلمانوں سے بائیکاٹ کر رکھا ہے اور دوسروں سے مار کھائے ہوئے مسلمان ہم پر حملہ کر رہے ہیں ۔ایسی صورت میں ہمارے لیے زیادہ ضروری ہے کہ ہم ان مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کریں ۔ان امور کو مد نظر رکھتے ہوئے لوہے اور لکڑی اور چمڑے اور شیشے کے کام شروع کیے گئے ہیں اور آئندہ کپڑا بُننے کا کام اور دوا سازی کا کام شروع کرنے کا ارادہ ہے۔……

حضرت مصلح موعود رضی اﷲ عنہ کے دل کی ایک حسرت

میں نہیں جانتا کہ دوسرے دوستوں کا کیا حال ہے لیکن میں تو جب ریل گاڑی میں بیٹھتا ہو ں میرے دل میں حسرت ہوتی ہے کی کاش یہ ریل گاڑی احمدیوں کی بنائی ہوئی ہواور اس کی کمپنی کے وہ مالک ہوں اور جب میں جہاز میں بیٹھتا ہوں تو کہتا ہوں کاش یہ جہاز احمدیوں کے بنائے ہوئے ہوں اور وہ ان کمپنیوں کے مالک ہوں ۔میں پچھلے دنوں کراچی گیا تو اپنے دوستوں سے کہا کاش کوئی دوست جہاز نہیں تو کشتی بنا کر ہی سمندر میں چلانے لگے اور میری یہ حسرت پوری کر دے اور میں اس میں بیٹھ کر کہہ سکوں کہ آزاد سمندر میں یہ احمدیوں کی کشتی پھر رہی ہے دوستوں سے میں نے یہ بھی کہا کاش کوئی دس گز کا ہی جزیرہ ہو جس میں احمدی ہی احمدی ہوں اور ہم کہہ سکیں کہ یہ احمدیوں کا ملک ہے کہ بڑے کاموں کی ابتدا چھوٹی ہی چیزوں سے ہوتی ہے۔
یہ ہیں میرے ارادے اور یہ ہیں میری تمنائیں ۔ان کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم کام شروع کریں۔مگر یہ کام ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ ان جذبات کی لہریں ہر ایک احمدی کے دل میں پیدا نہ ہوں اور اس کے لیے جس قربانی کی ضرورت ہے وہ نہ کی جائے۔دنیا چونکہ صنعت و حرفت میں بہت ترقی کر چکی ہے اس لیے احمدی جو اشیا اب بنائیں گے وہ شروع میں مہنگی پڑیں گی مگر باوجود اس کے جماعت کا فرض ہے کہ انہیں خریدے۔
ایک دفعہ دیال باغ آگرہ والے لاہور اپنی اشیاء کی نمائش کرنے کے لیے آئے تو انہو ں نے مجھے بھی دعوت دی۔ گورنرپنجاب کو انہوں نے ٹی پارٹی دینے کا انتظام کیا ہوا تھا اور اس موقع پر چیزیں بھی فروخت کرتے تھے اس وقت ان کی چیزیں نسبتاً مہنگی ہیں مگر ان کے خریدنے سے غرباء کی مدد بھی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ لوگ ان کامال شوق سے خریدتے تھے اور خود میں نے بھی ایک اٹیچی کیس ان سے خریدا تھا۔ اگر دوسری قومیں اپنی جماعتوں کو بڑھانے کے لیے یہ قربانی کر سکتی ہیں تو کیوں احمدی ایسا نہیں کر سکتے جبکہ ان کی ضرورت دوسرے لوگوں سے بھی اہم ہے کیونکہ ہمارے کارخانوں کی اشیاء خریدنے سے نہ صرف غرباء کو امداد ملے گی بلکہ سب سے بڑے غریب اسلام کو بھی مدد ملے گی جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

بے کسے شد دین احمدؐ ، ہیچ خویش دیار نیست
ہر کسے در کار خود با دین احمدؐ کار نیست

پس اس وقت اسلام سب سے زیادہ امداد کا محتاج ہے اور اس طرح مدد کرنے سے نہ صرف افراد کی مدد ہو گی بلکہ اس عظیم الشان صداقت کی بھی مدد ہوگی جو بے کس ہے۔پس یہ نہایت ثواب کا کام ہے دینوی لحاظ سے بھی اوردینی لحاظ سے بھی اور میں سمجھتا ہوں تھوڑے عرصہ میں ایسے ماہر پیدا ہو سکیں گے جو باہر نکل کر اچھے کام کر سکیں گے ۔ہم کارخانوں میں کام سیکھنے والوں کو ساتھ تعلیم بھی دیں گے اور اس طرح انہیں صرف مستری نہیں بلکہ انجینئر بنائیں گے۔
پس ایک بات تو میں جماعت کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ ان کارخانوں کے حصے خریدے اور یہ مدنظر رکھ کر خریدے کہ کوئی چیز دنیا کی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی ایسی نہ ہو جو احمدیوں کی بنائی ہوئی نہ ہو۔ اس طرح خداتعالیٰ کے فضل کے ساتھ جب ہماری جماعت ترقی کرے گی تو ساتھ اسلام کی بھی ترقی ہوگی۔……

بیکاروں کو کام پر لگائیں

میں اخبار کی ایجنسیاں قائم کرنے کی تحریک اخبارات کی ترقی کے لیے ہی نہیں کرتا بلکہ بیکاروں کو کام پر لگانے کے لیے بھی کرتا ہوں۔ میں نے باربار توجہ دلائی ہے کہ اگرکوئی شخص مہینہ میں ایک روپیہ بھی کما سکتا ہے تو بھی وہ ضرور کام کرے ۔ جب تک ہم اس طرف توجہ نہ کریں گے ۔اس وقت تک بحیثیت جماعت نہ روحانیت مضبوط ہوگی اور نہ دنیوی حالت۔ یہ خیال کہ اتنی آمد ہو تب کام کروں گاورنہ نہیں بہت نقصان رساں ہے۔
میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اپنے ہا ں جاکر بیکار لوگوں کو کام پر لگانے کی کوشش کریں،خواہ کسی کام سے کتنی ہی کم آمدنی ہو ۔کتابوں اور اخبارات کی ایجنسیاں قائم کی جائیں اور اپنی اپنی جماعت کے متعلق اس قسم کے نقشے بھجوائے جائیں کہ کتنے لوگ بیکار ہیں اور کتنے لوگوں کوکسی نہ کسی کام پر لگایا گیا ہے ۔بیکار خواہ کتنے ہی معمولی کام پر اپنے آپ کو لگا دیں اس سے انہیں آگے چل کر بہت فائدہ ہو گا ۔ان کے اندر کام کرنے کی اتنی طاقت پیدا ہو جائے گی کہ دوسراا س کا اندازہ نہیں کر سکے گا اور اس کے شاندار نتائج نکلیں گے۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت1936ء صفحہ128تا135)


Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے