اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

اپنی اولادوں کو کام کا عادی بناؤ

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ15؍مئی1936ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’ میں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ اپنی اولادوں کو کام کا عادی بناؤ مگر اس تحریک میں مجھے کئی ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا کہ جو اس وجہ سے اولاد سے کام نہیں کراتے کہ گرمی زیادہ ہے بھوکے مریں گے مگر جب کہا جائے کہ جو کارخانے کھولے جا رہے ہیں ان میں اولاد کو داخل کر دو تو کہیں گے کہ وہاں گرمی میں کام کرنا پڑتاہے۔ہم تو گرم ملک کے رہنے والے ہیں مگر سرد ملک کے رہنے والے انگریز گرمی میں کام کرنے سے نہیں گھبراتے۔انگلستان میں چھ ماہ تو برف پڑی رہتی ہے اور گرمیوں میں بھی اتنی سردی ہوتی ہے کہ آدمی ٹھٹھر نے لگتاہے ۔جب میں وہاں گیا تھا تو سخت گرمی کا موسم تھا۔حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے گرم پاجامہ پہنا اور کہنے لگے کہ میں نے ہندوستان میں سخت سردیوں کے موسم میں بھی اسے کبھی نہ پہناتھا مگر ایسے سرد ملک کے رہنے والے لوگ انجنوں پر کام کرتے ہیں اور ہمارے ملک کے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ انگریزوں نے نوکریاں سنبھال لی ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ کیوں نہ سنبھالیں وہ نہیں سنبھالیں گے تو کیا وہ نکمے لوگ سنبھالیں گے جو گرمی گرمی پکارتے ہیں اور اولادوں کو گھروں میں بے کار بٹھائے رکھتے ہیں ۔

نکما آدمی نجاست کھانے والی بھیڑوں سے بھی بد تر ہے

میں نے الفضل والوں کو کہا تھا کہ وہ شہروں میں ایجنسیاں قائم کر دیں مگر وہ شکایت کرتے ہیں کہ نوجوان یہ کام نہیں کرتے اور کوئی کرتاہے تو روپیہ نہیں دیتا۔جس قوم کے نوجوان چند پیسے بھی لے کر ادا نہ کریں اور بے کار پھریں ،کام کے لیے تیار نہ ہوں وہ کب امید کر سکتی ہے کہ زندہ رہے گی؟حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے جس سے مخالف مراد ہیں مگر جماعت کو بھی اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔آپؑ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک بڑی لمبی نالی ہے اور اس نالی پر ہزار ہا بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اس طرح پر کہ بھیڑوں کا سر نالی کے کنارہ پر ہے اس غرض سے کہ تا ذبح کرنے کے وقت ان کا خون نالی میں پڑے،ہر ایک بھیڑ پر ایک قصاب بیٹھا ہے اور ان تمام قصابوں کے ہاتھ میں ایک ایک چھری ہے جو ہر ایک بھیڑ کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف ان کی نظر ہے ۔ گویا اﷲ تعالیٰ کی اجازت کے منتظر ہیں۔میں دیکھتاہوں کہ وہ لوگ جو دراصل فرشتے ہیں بھیڑوں کے ذبح کرنے کے لیے مستعد بیٹھے ہیں محض آسمانی اجازت کی انتظار ہے تب میں ان کے نزدیک گیا اور میں نے قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی

’’قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَآؤُکُمْ(الفرقان:78)‘‘

یعنی میراخدا تمہاری کیاپرواہ کرتا ہے اگر تم اس کی پرستش نہ کرو اور اس کے حکموں کو نہ سنو۔میرا یہ کہنا ہی تھا کہ فرشتوں نے فی الفور اپنی بھیڑوں پر چھریاں پھیر دیں اور کہا تم چیز کیا ہو؟گوں کھانے والی بھیڑیں ہی ہو۔ مطلب یہ ہے کہ وہ نکمے لوگ مٹا دیے جاتے ہیں۔ بھیڑیں تو پھر بھی گوں کھا کر نجاست کو دور کرتی ہیں لیکن نکما آدمی تو اس سے بھی بد تر ہے۔‘‘

(تحریک جدید-ایک الٰہی تحریک جلد اول صفحہ273تا274)


Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے