حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ10؍اپریل1936ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’دوسری سکیم یہ ہے کہ یہاں کارخانے جاری کیے جائیں ۔جراب سازی کا کارخانہ تو اپنے طور پر قائم ہو چکاہے اور وہ اس سکیم کے ماتحت نہیں گو میری تحریک سے ہی جاری ہواہے ۔اس سکیم کے ما تحت جو کارخانے جاری کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں۔(۱)لوہے کا کام کرنے کا کارخانہ(۲)لکڑی کا کام کرنے کا کارخانہ،اب چمڑے کے کام کا بھی اضافہ کیا جا رہاہے،(اس دوران میں یہ کارخانہ بھی جاری ہو چکاہے)(۳)دوا سازی کاکام بھی شروع کیا جائے گا جس کی ایک شاخ دہلی میں کھولی جائے گی(۴)گلاس فیکٹری کا کام ہے۔ایک مخلص دوست نے اپنی جائیداد بیچ کر جاری کیا ہے۔چونکہ وہ اکیلے اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے اس لیے اس میں بھی تحریک جدید کا حصہ رکھ دیا گیا ہے۔بیرونی ممالک میں جو مبلغ گئے ہیں ان کے ذریعہ وہاں کئی قسم کا ہندوستان کاسامان فروخت ہو سکتاہے اس لیے ایک قسم کی دکان جاری کرنے کی تجویز ہے۔اس کے علاوہ اور کارخانے بھی مدنظر ہیں۔اصل بات بیکاروں کو کام پر لگانا ہے اور یہ بھی کہ جماعت کی مالی حالت بھی اچھی ہو اور تحریک جدید کی مالی تحریک جب بند کر دی جائے تو اس کاکام ان کارخانوں کی آمدنی سے چلے ۔
ان کارخانوں کے متعلق احباب ان طریقوں سے مدد کر سکتے ہیں۔
- جن احباب کو ان کاموں میں سے کسی کا تجربہ ہو وہ مفید تجاویز بتائیں اور سود مند مشورے دیں۔
- ماہر فن احباب کارخانوں میں آکر کام ہوتا دیکھیں اور مشورے دیں کہ کس طرح کام کرنا چاہیے۔
اس طرح بھی اس بارے میں مدد کی جا سکتی ہے کہ جماعت کے لوگ ان کارخانوں کی بنی ہوئی چیزیں خریدیں۔ہوزری سے خریدنے کے لیے میں نے کہا تھا۔گو مجھے افسوس ہے کہ اس طرف پوری توجہ نہیں کی گئی مگر مجھے ہوزری سے بھی شکایت ہے کہ اس نے کام اس طرح سے شروع نہیں کیا جس طرح اسے کرنا چاہیے تھا۔اسی طرح لکڑی کا سامان ہے جو دوست یہ سامان اور جگہوں سے خریدتے ہیں وہ یہاں سے خریدا کریں۔
ان کارخانوں میں کام سکھانے کے متعلق ہم یتیم لڑکوں کو مقدم رکھیں گے اور جن لڑکوں کو ہم لیتے ہیں ان کا سارا خرچ برداشت کرتے ہیں ساتھ ہی دینی اور دنیوی تعلیم بھی دلاتے ہیں تاکہ گو وہ کہنے کو تو مستری ہوں لیکن اصل میں انجینئر ہوں اور اعلیٰ پیشہ ور ہوں۔ یہ بھی ارادہ ہے کہ سرکاری ورکشاپوں سے معلوم کیا جائے کہ انہیں کن کاموں اور پیشوں کے جاننے والوں کی ضرورت ہوتی ہے پھر ان کے مطابق کام سکھایا جائے۔‘‘
جواب دیں