اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

بچوں کو بے کار رکھنا موت کے مترادف

حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ23؍اکتوبر1936ء کومجلس مشاورت میں فرمایا:
’’میں نے جماعت سے دین کی خدمت کے لیے روپے مانگے اور وہ اس نے دے دیے لیکن جب میں نے کہا کہ میں تمہارے بچوں کو زندگی دیتا ہوں تو اسے قبول نہ کیا گیا اور جہاں دو متضاد چیزیں جمع ہو جائیں وہاں ترقی کس طرح ہو سکتی ہے؟ہماری جماعت کے لوگوں نے پہلے سے زیادہ مالی قربانی کر کے گویا اپنے آپ کو ایک رنگ میں مار دیا اور اپنے بچوں کو بیکار رکھ کر موت لے لی اور اس طرح دو موتیں جمع ہو گئیں۔حالانکہ میں نے ان کو ایک حیات دی تھی اور وہ یہ کہ اپنے بچوں کو بیکار نہ رکھو ،اسے انہوں نے چھوڑ دیا اور جو موت دی تھی وہ لے لی اور پھر کہا جاتا ہے کہ بچوں کے لیے کوئی کام نہیں ملتا۔ قادیان میں ہی ایک محکمہ بے کاری کو دور کرنے کے لیے ہے مگر وہ کامیاب نہیں ہوتا۔

کام سیکھنے والے کو مزدوری کم کیوں دی جاتی ہے

ہم نے یہاں کئی کارخانے جاری کیے ہیں مگر یہی سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے اور مزدوری تھوڑی ملتی ہے ۔حالانکہ آوارگی اور بیکاری سے تو تھوڑی مزدوری بھی اچھی ہے ۔یہ قدرتی بات ہے کہ کام سیکھنے والے سے کام خراب بھی ہو جاتا ہے اور اس طرح کام سکھانے والوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔اس وجہ سے کام سیکھنے والوں کو کم مزدوری دی جاتی ہے ۔کل ہی کام سکھانے والے آئے تھے جو کہتے تھے کہ کام سیکھنے والے لڑکوں نے کام خراب کر دیا ہے۔
طریق تو یہ ہے کہ کام سکھانے والے سیکھنے والوں سے لیتے ہیں مگر ہم تو کچھ نہ کچھ دیتے ہیں مگر پھر بھی کام نہیں سیکھتے،حالانکہ اس وقت تک ہمارے پاس کئی ہندوؤں کی چٹھیاں آچکی ہیں کہ ہمارے بچوں کو اپنے کارخانوں میں داخل کر کے کام سکھائیے۔ولایت میں بھی کام سکھانے والے سیکھنے والوں سے لیتے ہیں مگر یہاں کہتے ہیں کہ مزدوری کم ملتی ہے اور اس وجہ سے بچوں کو اٹھاکر لے جاتے ہیں جبکہ میرا بتایا ہوا یہ گُر استعمال نہیں کیا گیا تو آگے کیا امید ہو سکتی ہے کہ جو بات بتائی جائے گی اس پر عمل کیا جائے گا مگرمیرا کام یہ ہے کہ راہنمائی کرتا جاؤں جب تک جماعت یہ بات محسوس نہیں کرتی کہ نوجوانوں کا بیکار رہنا خطرناک ظلم ہے اتنا خطر ناک کہ اس سے بڑھ کر اولاد پر اور پھر قوم پر ظلم نہیں ہو سکتا۔
میں نے کہا تھا کہ چاہے ایک پیسہ کی مزدوری ملے تو بھی کرو خواہ کوئی گریجو ایٹ ہو جب تک اسے کوئی اورکام نہیں ملتا ۔اب اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہتا ہوں کہ اگر ایک پیسہ بھی نہ ملے تو بھی محنت مزدوری کروکیونکہ بیکار رہنے کی نسبت یہ بھی تمہارے لیے ،تمہارے خاندان کے لیے اورتمہاری قوم کے لیے بابرکت ہوگا۔
یاد رکھو! جب تک تم اپنی زندگی کے لمحات مفید بنانے کے لیے تیار نہیں ہوتے اس وقت تک غالب حیثیت سے رہنے کے بھی قابل نہیں بن سکتے۔غلبہ حاصل کرنے کے لیے کام کرنے بلکہ کام میں لذت محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔اگر کسی کو کوئی کام نہیں ملتا تو وہ گھر سے نکل جائے اور وہ سڑکوں پر جھاڑو ہی دیتا پھرے مگر بیکار نہ رہے۔‘‘

(تحریک جدید -ایک الٰہی تحریک جلد اول صفحہ368،369)


Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے