حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدیٔ معہود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت امتِ مسلمہ کی اصلاح کے لئے حَکَم عَدل بنا کر بھیجا جب امتِ مسلمہ باہمی افتراق و انتشار کا شکار تھی اور تمام غیر مذاہب اسلام پر حملہ آور تھے اوروہ مسلمانوں کی سیاسی اورمذہبی پستی کا فائدہ اُٹھاکر مسلمانوں کو ان کے دین سے برگشتہ کررہے تھے۔
وہ امت واحدہ جو جسد واحد کی طرح تھی لیکن باہمی اختلافات کی وجہ سے بہتّر فرقوں میں بٹ چکی تھی اورعجیب بات یہ تھی کہ اختلاف کی وجوہ بنیادی اصول میں نہیں بلکہ فروعی مسائل تھے۔
خدا کا کلام قرآن کریم اللہ کی رسّی کی شکل میں موجود تو تھامگر باہمی تنازعات کی وجہ سے ہر فرقہ الگ الگ تفسیر کرتا تھا۔ فقہی اور مسلکی اختلافات میں شدّت آچکی تھی۔ باوجود اس کے کہ گزشتہ بارہ تیرہ سوسال سے فقہی مذاہب نہروں کی شکل میں ساتھ ساتھ بہہ رہے تھے اوران میں باہمی بحث مباحثے اور مناظرے بھی ہوتے تھے تاہم اس دور میں ہر کوئی اپنے آپ کواپنے اپنے مؤقف میں قلعہ بند کر چکا تھا اور دوسروں کی بات سننے کا بھی روادار نہیں تھا۔ اس صورتحال کو حضرت مسیح موعود ؑ نے یوں بیان فرمایا ہے:۔
’’اِفْتَرَقَتِ الْأُمَّۃُ، وَتَشَاجَرَتِ الْمِلَّۃُ فَمِنْہُمْ حَنْبَلِیٌّ وَشَافِعِیٌّ وَ مَالِکِیٌّ وَحَنَفِیٌّ وَحِزْبُ الْمُتَشَیِِّعِیْنَ۔ وَ لَا شَکَّ اَنَّ التَّعْلِیْمَ کَانَ وَاحِدًا وَّلٰکِنِ اخْتَلَفَتِ الْاَحْزَابُ بَعْدَ ذَالِکَ فَتَرَوْنَ کُلَّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحِیْنَ۔ وَ کُلُّ فِرْقَۃٍ بَنٰی لِمَذْھَبِہِ قَلْعَۃً وَلَا یُرِیْدُ أَنْ یَّخْرُجَ مِنْھَا وَلَوْ وَجَدَ اَحْسَنَ مِنْھَا صُوْرَۃً وَکَانُوْا لِعَمَاسِ اِخْوَانِھِمْ مُتَحَصِّنِیْنَ فَاَرْسَلَنِیَ اللّٰہُ لِأَٔسْتَخْلِصَ الصِّیَاصِی وَأَسْتَدْنِیَ الْقَاصِی، وَاُنْذِرَ الْعَاصِی، وَیَرْتَفِعَ الْاِخْتِلَافُ وَیَکُوْنَ الْقُرْآنُ مَالِکَ النَّوَاصِی وَ قِبْلَۃَ الدِّیْنِ۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام ۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ559،560)
ترجمہ: امتِ مسلمہ افتراق و انتشار کا شکار ہوگئی ہے ان میں سے بعض حنبلی ، شافعی، مالکی ، حنفی اور شیعہ بن گئے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ابتدا میں تعلیم تو ایک ہی تھی لیکن بعد میں کئی گروہ بن گئے اورہرگروہ اپنے نقطہ نظر پر خوش ہوگیا۔
ہرفرقہ نے اپنے اپنے مذہب کو ایک قلعہ بنارکھا ہے اور وہ اس سے باہر نکلنا نہیں چاہتے ،خواہ دوسری طرف انہیں بہتر صورتحال ملے اور وہ اپنے بھائیوں کی بے دلیل باتوں پر ڈٹ جاتے ہیں۔پس اللہ نے اس صورتحال میں مجھے بھیجا تاکہ میں ایسے قلعوں سے انہیں باہر نکالوں اور جو دورہوچکے ہیں انہیں نزدیک لے آؤں اور نافرمانوں کو ہوشیار کردوں اور اس طرح اختلاف رفع ہوجائے اور قرآن کریم ہی پیشانیوں کا مالک اور دین کا قبلہ بن جائے۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام امتِ مسلمہ کے افتراق اورانتشار اورگمراہی کے دور میں خدا کی طرف سے مامور بن کر آئے۔ چنانچہ آپ نے خدا کے حکم سے یہ دعویٰ فرمایا کہ میں ہی وہ موعود مسیح اورمہدی ہوں جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کر رکھی ہے۔
بخاری کتاب الانبیاء کی یہ مشہور حدیث دراصل آپ کے بابرکت وجود کے بارہ میں ہی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
’’وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیُوْشِکَنَّ أَنْ یَّنْزِلَ فِیْکُمُ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا ، فَیَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیْضُ الْمَالُ حَتَّی لَا یَقْبَلُہٗ اَحَدٌ حَتَّی تَکُوْنَ السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَافِیْھَا‘‘
(بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم حدیث نمبر3448)
ترجمہ: اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریب ہے کہ ابن مریم حَکَم عدل بن کر تم میں نازل ہوں، وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ کو موقوف کردیں گے اورمال اس کثرت سے ہوگا کہ اسے کوئی قبول نہیں کرے گا حتَّی کہ ایک سجدہ دنیاومافیہا سے بہتر ہوجائے گا۔
اسی طرح سنن ابن ماجہ کی روایت میں حَکَمًا مُقسِطًا اوراِمَامًا عَدْلًا کے الفاظ آئے ہیں یعنی منصف مزاج حَکَم اورعادل امام ۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب فتنۃ الدجال وخروج عیسی بن مریم )
پیشگوئی کے عین مطابق آپ نے دعویٰ فرمایا کہ
’’میں خداتعالیٰ کی طرف سے آیاہوں اورحَکَم ہوکر آیاہوں۔ ابھی بہت زمانہ نہیں گزرا کہ مقلّد غیر مقلّدوں کی غلطیاں نکالتے اوروہ اُن کی غلطیاں ظاہر کرتے اوراس طرح پر دوسرے فرقے آپس میں درندوں کی طرح لڑتے جھگڑتے تھے ایک دوسرے کو کافر کہتے اورنجس بتاتے تھے۔ اگر کوئی تسلّی کی راہ موجود تھی تو پھر اس قدر اختلاف اور تفرقہ ایک ہی قوم میں کیوں تھا؟ غلطیاں واقع ہوچکی تھیں اورلوگ حقیقت کی راہ سے دور جاپڑے تھے۔ ایسے اختلاف کے وقت ضرورتھا کہ خدا تعالیٰ خود فیصلہ کرتا۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اورایک حَکَم ان میں بھیج دیا۔‘‘
(الحکم 30ستمبر1904ء صفحہ2،3)
امت مسلمہ کے مسلکی اور فقہی اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لئے ضروری تھا کہ حَکَم غیر جانبدار ہو ۔ اگرحَکَم پہلے سے کسی فرقہ کی طرف منسوب ہو یا اپنے آپ کو مطیع اور مقلّد کہتا ہو تو پھراس کا فیصلہ کون تسلیم کرتا۔ فرمایا
’’ ہم بطورحَکَم کے آئے ہیں کیا حَکَم کو یہ لازم ہے کہ کسی خاص فرقہ کا مرید بن جاوے ۔بہتّر فرقوں میں سے کس کی حدیثوں کو مانے۔حَکَم تو بعض احادیث کو مردود اور متروک قراردے گااوربعض کوصحیح۔ ‘‘
(الحکم 10فروری 1905ء صفحہ۴)
ایک اور جگہ فرمایا
’’آنے والے مسیح کا نام حَکَم رکھا گیا ہے۔ یہ نام خود اشارہ کرتا ہے کہ اس وقت غلطیاں ہوں گی اورمختلف الرائے۔۔۔۔لوگ موجود ہوں گے۔پھر اُسی کا فیصلہ ناطق ہوگا۔اگر اسے ہر قسم کی باتیں مان لینی تھیں تو اس کا نام حَکَم ہی کیوں رکھا گیا؟
(الحکم 17نومبر1902ء صفحہ2)
آپؑ نے بتایاکہ حَکَم دراصل حرم کے مشابہہ ہے جس کا کام لوگوں کو اختلافات سے بچا کرامن دینا ہے ۔فرمایا
اللہ نے اپنے ایک بندے کو بھیجا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان حَکَم بن کر فیصلہ کردے جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے تھے اورتاکہ وہ اسے فاتح قراردیں اور وہ اس کی ہر بات اچھی طرح تسلیم کرلیں اوراس کے فیصلوں پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اوریہ وہی حَکَم ہے جو (خدا کی طرف سے) آیا ہے۔ ۔۔۔۔ اے لوگو!تم مسیح کا انتظار کرتے تھے اوراللہ نے جس طرح چاہا اُسے ظاہر کردیا۔ پس اپنے چہروں کو اپنے رب کی طرف پھیر لواوراپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔تم احرام کی حالت میں شکار نہیں کرتے تواب تم اپنی متفرق آراء کی پیروی کس طرح کر سکتے ہوجبکہ تمہارے پاس حَکَم موجود ہے٭۔
٭ حاشیہ: متفرق آراء پرندوں کے مشابہہ ہیں جو ہوا میں ہوتے ہیں اور حَکَم اس امن والے حرم کے مشابہہ ہے جو غلطیوں سے امن دیتا ہے جس طرح اللہ کی مقدس سرزمین کی عزت کی خاطر حرم میں شکار منع ہے اسی طرح متفرق آراء کی پیروی … اس حَکَم کی موجودگی کی وجہ سے حرام ہے۔وہ حَکَم جو معصوم ہے اور خدائے عزّوجل کی طرف سے حَرَم کی جگہ پر ہے۔ اب ادب کا تقاضا ہے کہ ہر بات اس کے سامنے پیش کی جائے اوراُسی کے ہاتھوں سے ہی اب ہر چیزوصول کی جائے۔
(الھُدٰی والتبصرۃُ لِمَن ْ یَرٰی ۔ روحانی خزائن جلد18صفحہ338،339۔عربی سے ترجمہ)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے امت مسلمہ کی ہر پہلو سے رہنمائی فرمائی اور جن عقائد اوراعمال میں بگاڑ پیدا ہوچکاتھا ان کی اصلاح فرمائی۔آپ ؑ کی بعثت کے وقت امت مسلمہ مختلف فرقوں اورجماعتوں میں بٹی ہوئی تھی اور فقہی اختلافات کے لحاظ سے بھی بہت شدّت آچکی تھی اوربرصغیر پاک و ہند میں حنفی اورغیرحنفی کی تقسیم واضح صورت اختیار کرچکی تھی۔ حنفی اپنے حنفی ہونے پر فخر کرتے تھے اور دین میں اجتہاد کے راستے کو ازخود بند کرچکے تھے اوراپنے ائمہ کی فخریہ تقلید کرتے تھے۔ جبکہ دوسری طرف اہلحدیث فرقہ، حنفیوں کی سخت مخالفت کرتا تھا اور فروعی مسائل میں باہمی مباحثے ہوتے تھے۔ اہلحدیث موحّد کہلاتے تھے اور حدیث کی اہمیت اوردرجے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے اوربخاری اورمسلم کو عملًا قرآن کے برابر قراردیتے تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ہردوگروہوں کی اصلاح فرمائی اورانہیں صحیح راستہ دکھایا۔ فرمایا
’’جب ہم اس امر میں غور کریں کہ کیوں ان کتابوں(بخاری و مسلم۔ناقل) کو واجب العمل خیال کیا جاتا ہے تو ہمیں یہ وجوب ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے حنفیوں کے نزدیک اس بات کا وجوب ہے کہ امام اعظم صاحب کے یعنی حنفی مذہب کے تمام مجتہدات واجب العمل ہیں! لیکن ایک دانا سوچ سکتا ہے کہ یہ وجوب شرعی نہیں بلکہ کچھ زمانہ سے ایسے خیالات کے اثر سے اپنی طرف سے یہ وجوب گھڑا گیا ہے جس حالت میں حنفی مذہب پر آپ لوگ یہی اعتراض کرتے ہیں کہ وہ نصوص بیّنہ شرعیہ کو چھوڑ کر بے اصل اجتہادات کو محکم پکڑتے اور ناحق تقلید شخصی کی راہ اختیار کرتے ہیں تو کیا یہی اعتراض آپ پر نہیں ہوسکتا کہ آپ بھی کیوں بے وجہ تقلید پر زور مار رہے ہیں ؟ حقیقی بصیرت اور معرفت کے کیوں طالب نہیں ہوتے ؟ ہمیشہ آپ لوگ بیان کرتے تھے کہ جو حدیث صحیح ثابت ہے اس پر عمل کرنا چاہئے اور جو غیر صحیح ہو اس کو چھوڑ دینا چاہئے۔اب کیوں آپ مقلدین کے رنگ پر تمام احادیث کو بلا شرط صحیح خیال کر بیٹھے ہیں ؟ اس پر آپ کے پاس شرعی ثبوت کیا ہے؟‘‘
جواب دیں