حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مامور زمانہ کی حیثیت سے ایک نیا فقہی اسلوب دیا جو فقہ احمدیہ کی بنیاد بنا۔آپ کے فقہی اسلوب کے بنیادی خدّوخال ،آپ کی تحریرات اورملفوظات میں ہمیں ملتے ہیں۔ آپ نے اصول اور مسائل فقہ میں ہر پہلو سے ہماری رہنمائی فرمائی اورمیزان اور اعتدال کا راستہ دکھایا اورصراط مستقیم پر ہمیں قائم فرمایا ۔ آپ ؑ کے فقہی اسلوب کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔قرآن کریم ہی اصل میزان، معیار اورمِحَک ہے
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ہمیں شریعت کی اصل بنیاد پر نئے سرے سے قائم فرمایا اور خدا کی اس رسّی کو مضبوطی سے پکڑنے کی ہدایت کی جسے لوگ چھوڑچکے تھے۔ چنانچہ آپ نے باہمی اختلافات کو دورکرنے کے لئے یہ رہنمائی فرمائی کہ قرآن کریم ہی میزان، معیار اورمِحَک ہے۔ فرمایا:
’’ کتاب و سنت کے حجج شرعیہ ہونے میں میرا یہ مذہب ہے کہ کتاب اللہ مقدم اور امام ہے۔ جس امر میں احادیث نبویہ کے معانی جو کئے جاتے ہیں کتاب اللہ کے مخالف واقع نہ ہوں تووہ معانی بطور حجت شرعیہ کے قبول کئے جائیں گے لیکن جو معانی نصوص بینہ قرآنیہ سے مخالف واقع ہوں گے ان معنوں کو ہم ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ بلکہ جہاں تک ہمارے لئے ممکن ہوگا ہم اس حدیث کے ایسے معانی کریں گے جوکتاب اللہ کی نص بیّن سے موافق و مطابق ہوں اور اگر ہم کوئی ایسی حدیث پائیں گے جو مخالف نص قرآن کریم ہوگی اور کسی صورت سے ہم اس کی تاویل کرنے پر قادر نہیں ہوسکیں گے تو ایسی حدیث کو ہم موضوع قرار دیں گے ‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد4صفحہ11،12)
2۔ سنّت اور تعامل کی حجیّت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حدیث کی صحت کو پرکھنے کے لئے قرآن کریم کو معیار قراردیا اورمولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے اس موضوع پر آپ کا ایک مباحثہ ہواجو ’’الحق مباحثہ لدھیانہ ‘‘ کے نام سے روحانی خزائن جلد4میں موجود ہے۔ آپ نے حدیث کے صحیح مقام کو واضح کیا اور بتایا کہ سنت اور حدیث میں فرق ہے۔ سنت الگ چیز ہے اورحدیث الگ چیز۔ سنت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش کا نام ہے جو تعامل کے رنگ میں امتِ مسلمہ میں مسلسل جاری رہی ہے اس لئے ہم اسے نہایت اہمیت دیتے ہیں اوراس کے بارہ میں یہ معیار قرارنہیں دیتے کہ اسے قرآن کریم پر پرکھا جائے۔ہاں حدیث کو قرآن کریم پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔
سنت اور حدیث کا فرق واضح کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:۔
’’ہم حدیث اورسنت کو ایک چیز قرارنہیں دیتے جیسا کہ رسمی محدّثین کا طریق ہے بلکہ حدیث الگ چیز ہے اورسنت الگ چیز ہے۔ سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے اورابتداء سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اورہمیشہ ساتھ ہی رہے گی۔ یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا کا قول ہے اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل۔ ‘‘
(ریویو برمباحثہ بٹالوی و چکڑالوی۔روحانی خزائن جلد19صفحہ209،210)
نیزفرمایا
’’ ان لوگوں کو یہ غلطی لگی ہوئی ہے کہ سنت اور حدیث کو ایک ہی قراردیتے ہیں حالانکہ یہ دونوں الگ ہیں اور اگر حدیث جو آپؐ کے بعد ڈیڑھ سو دو سو برس بعد لکھی گئی نہ بھی ہوتی تب بھی سنت مفقود نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ یہ سلسلہ توجب سے قرآن نازل ہونا شروع ہوا ساتھ ساتھ چلا آتا ہے اورحدیث وہ اقوال ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے اور پھر آپ کے بعد دوسری صدی میں لکھے گئے۔‘‘
(الحکم 17نومبر1902ء صفحہ2)
حضرت مسیح موعود ؑ نے حدیث کے مقابلے میں سنت اور تعامل کو بڑی اہمیت دی اور فرمایا:۔
’’ یہ ایک دھوکہ ہے کہ ایسا خیال کرلیا جائے کہ احادیث کے ذریعہ سے صوم و صلوٰۃ وغیرہ کی تفاصیل معلوم ہوئی ہیں بلکہ وہ سلسلہ تعامل کی وجہ سے معلوم ہوتی چلی آئی ہیں اوردرحقیقت اس سلسلہ کو فن حدیث سے کچھ تعلق نہیں وہ توطبعی طورپر ہرایک مذہب کو لازم ہوتا ہے۔ ‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ26)
آپ نے سنت اور تعامل کے باہمی تعلق کو واضح کرکے دکھایا اور سنت کی زیادہ اہمیت کی وجہ بتائی کہ اُسے سلسلہ تعامل نے حجت قوی بنادیاہے۔فرمایا
’’احادیث کے دو حصّہ ہیں ایک وہ حصّہ جو سلسلہ تعامل کی پناہ میں کامل طورپرآگیا ہے یعنی وہ حدیثیں جن کو تعامل کے محکم اورقوی اورلاریب سلسلہ نے قوت دی ہے اورمرتبہ یقین تک پہنچادیا ہے جس میں تمام ضروریات دین اور عبادات اورعقود اور معاملات اوراحکام شرع متین داخل ہیں۔ ‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ35)
3۔ انسانی اجتہاد پر حدیث فضیلت رکھتی ہے
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک طرف قرآن کریم کو حدیثوں کو پرکھنے کے لئے معیار قراردیا اور سنت اورتعامل کو حدیث پر اہمیت دی اور اسے قطعی اور یقینی درجہ دیا ۔دوسری طرف محدّثین کے خود ساختہ معیار کے مطابق ضعیف قراردی جانے والی احادیث کو بھی انسان کے اجتہاد اور فقہ پر ترجیح دی کیونکہ بہرحال وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہیں اس حوالے سے آپ نے اپنی جماعت کو بھی خصوصی نصیحت فرمائی۔
فرمایا
’’ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اورانسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کو ترجیح دیں۔ ‘‘
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ212)
4۔ شریعت کی اصل روح کا احیاء
حضرت مسیح موعود ؑ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا :
’’ یُحْيِ الدِّیْنَ وَیُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ ‘‘
ترجمہ: وہ دین کو زندہ کرے گا اور شریعت کو قائم کرے گا۔
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ79)
اس الہام میں یہ پیغام دیا گیا کہ آپ ؑ کے ذریعے دین کااحیاء ہوگا اور شریعت کو اصل شکل میں قائم کیا جائے گا۔چنانچہ آپ نے شریعت کے منافی تمام باتوں کی مناہی فرمائی اور انہیں بدعات قراردے کر اپنی جماعت کو ان سے بچنے کی نصیحت کی۔فرمایا
’’کتاب اللہ کے برخلاف جو کچھ ہورہا ہے وہ سب بدعت ہے اورسب بدعت فی النار ہے۔ اسلام اس بات کا نام ہے کہ بجز اس قانون کے جو مقرر ہے ادھراُدھر بالکل نہ جاوے ۔ کسی کا کیا حق ہے کہ بار بار ایک شریعت بناوے۔۔۔۔
ہمارا اصول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کتاب قرآن کے سوا اورطریق سنت کے سِوا نہیں۔
(البدر 13مارچ1903ء صفحہ59)
اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا
’’پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال خیر کی راہ چھوڑ کر اپنے طریقے ایجاد کرنا اور قرآن شریف کی بجائے اوروظائف اور کافیاں پڑھنا یا اعمال صالحہ کی بجائے قِسم قِسم کے ذکر اذکار نکال لینا یہ لذتِ روح کے لئے نہیں ہے بلکہ لذتِ نفس کے لئے ہے۔ ‘‘
(الحکم 31جولائی 1902ء صفحہ8)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو ہر طرح کی بدعات سے منع کرتے ہوئے اصل سنت کو اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی۔ چنانچہ آپؑ نے قل خوانی، فاتحہ خوانی، چہلم، مولودخوانی، تصورِ شیخ، اسقاط، ختم، دسویں محرّم کی رسوم سمیت سب بدرسوم سے اپنی جماعت کوبچنے کی نصیحت فرمائی اور خدااور رسولؐ کی محبت کو دل میں پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی اورصرف ظاہری مسائل پر ہی ضرورت سے زیادہ توجہ دینے کے انداز کو ناپسندفرمایا۔ آپ نے فرمایا کہ خدا نے مجھے ایمان دلوں میں قائم کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ صرف ظاہری مسائل پر ہی عمل کرنا اور حقیقت کو نہ سمجھنا یہ بڑی غلطی ہے ۔مجھے خدا نے مجدّد بنا کر بھیجا ہے جو وقت کی ضرورت کے مطابق رہنمائی کرتا ہے۔فرمایا
’’مجدد جو آیا کرتا ہے وہ ضرورت وقت کے لحاظ سے آیاکرتا ہے نہ استنجے اور وضو کے مسائل بتلانے۔ ‘‘
(الحکم 19مئی 1899ء صفحہ4)
اسی طرح آپ نے اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا
’’یہ عاجز شریعت اور طریقت دونوں میں مجدّد ہے۔ تجدید کے یہ معنے نہیں ہیں کہ کم یا زیادہ کیا جاوے۔ اس کا نام تو نسخ ہے بلکہ تجدید کے یہ معنے ہیں کہ جوعقائد حقّہ میں فتور آگیاہے اور طرح طرح کے زوائد اُن کے ساتھ لگ گئے ہیں یا جو اعمال صالحہ کے ادا کرنے میں سُستی وقوع میں آگئی ہے یا جو وصول اور سلوک الی اللہ کے طرق اور قواعد محفوظ نہیں رہے اُن کو مجدّدًا تاکیدًا بالاصل بیان کیا جائے۔ ‘‘
(الحکم 24جون1900ء صفحہ3)
5۔ قیاسات مسلّمہ مجتہدین واجب العمل ہیں
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے حَکَم عَدل کی حیثیت سے باہمی تنازعات کا فیصلہ فرمایا اورجن امور میں امتِ مسلمہ میں اختلاف پایا جاتا تھا اور باہمی بحث مباحثے بھی ہوتے تھے اُن میں آپ ؑ نے صحیح اور معتدل راستہ دکھایا۔ اس کے علاوہ مسلّمہ اور متداول فقہی مسائل میں امتِ مسلمہ کے اجتہاد کوبھی بڑی اہمیت دی۔خاص طور پرایسے مسائل کو جومُطَہَّر بزرگان امت کے اجتہاد پر مبنی ہیں اور امت مسلمہ ان پرصدیوں سے عمل کر رہی ہے۔ فرمایا
’’ میں تمام مسلمانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے کسی ایک حُکم میں بھی دوسرے مسلمانوں سے علیحدگی نہیں جس طرح سارے اہل اسلام احکام بیّنہ قرآن کریم و احادیث صحیحہ و قیاسات مسلّمہ مجتہدین کو واجب العمل جانتے ہیں اسی طرح میں بھی جانتاہوں۔ ‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ82)
6۔بزرگان سلف کا احترام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حَکَم عدل کی حیثیت سے بہت سے اختلافی مسائل میں اپنا فیصلہ دیا اوراپناوزن کسی خاص موقف کے حق میں ڈالا تو اس پر بعض لوگوں نے ایسے سوال کئے جن سے بعض مسلّمہ بزرگان دین پر اعتراض ہوتا تھا۔ ایسی صورت حال میں آپؑ نے زیادہ تفصیل میں جانے سے منع فرمایا۔مثلًا
ذکر آیا کہ بعض بزرگ راگ سنتے ہیں آیا یہ جائز ہے؟فرمایا
’’ اس طرح بزرگان دین پر بد ظنی کرنا اچھا نہیں ، حسن ظن سے کام لینا چاہئے ۔ حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اشعار سُنے تھے۔ ‘‘
(البدر17نومبر1905ء صفحہ6)
اسی طرح ایک مرتبہ کسی نے نقش بندی صوفیاء کے بعض خاص طریقوں کے حوالے سے سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا کہ ہم ایسے طریقوں کی ضرورت خیال نہیں کرتے ۔ اس پر اس نے کہا کہ اگر یہ امورخلاف شرع ہیں تو بڑے بڑے مسلّمہ اورمشاہیر جن میں حضرت احمدسرہندی رحمۃ اللہ علیہ جیسے اولیاء بھی ہیں جنہوں نے مجدّد الف ثانی ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے ۔ یہ سب لوگ بدعت کے مرتکب ہوئے اورلوگوں کو ایسے امور کی ترغیب و تعلیم دینے والے ہوئے۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا
’’اسلام پر ایک ایسا زمانہ بھی آیا ہے کہ فتوحات کے بڑھ جانے اور دنیاوی دولت اورسامانِ تعیّش کی فراوانی سے لوگوں کے دلوں سے خدا کے نام کی گرمی سرد پڑتی جارہی تھی۔ اس وقت اگر ان بزرگوں نے بعض ایسے اعمال اختیار کئے ہوں جو اُن کے خیال میں اس وقت اس روحانی وبائی مرض میں مفید تھے تو وہ ایک وقتی ضرورت تھی اور بوجہ اُن کی نیک نیتی کے اس کو خدا کے حوالے کردینا مناسب ہے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد2صفحہ69،70)
بزرگانِ سلف کے بعض معتقدات سے اختلاف کے باوجود آپ نے اُن کی عزت اور قبولیت کو بہت اہمیت دی اوراُن کے عالی مقام کا بھی تذکرہ کیا۔ خاص طورپر یہ شرف حضرت امام ابو حنیفہؒ کوحاصل ہوا جن پرگزشتہ بارہ تیرہ سو سال سے اُن کے مخالف علماء اہل الرائے ہونے کا الزام لگاتے تھے اور اہل حدیث تو بار بار اس بات کو پیش کرتے تھے کہ امام صاحب نے قیاس سے کام لے کر گویاشریعت میں دخل دیا ہے۔
الحق مباحثہ لدھیانہ میں ایک ایسے ہی موقعہ پر حضرت مسیح موعود ؑ نے مولوی محمد حسین بٹالوی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا
’’اے حضرت مولوی صاحب آپ ناراض نہ ہوں آپ صاحبوں کو امام بزرگ ابوحنیفہ ؒسے اگر ایک ذرہ بھی حسن ظن ہوتا تو آپ اس قدر ُسبکی اور استخفاف کے الفاظ استعمال نہ کرتے آپ کو امام صاحب کی شان معلوم نہیں وہ ایک بحراعظم تھا اور دوسرے سب اس کی شاخیں ہیں اسکا نام اہل الرائے رکھنا ایک بھاری خیانت ہے! امام بزرگ حضرت ابوحنیفہؒ کو علاوہ کمالات علم آثار نبویہ کے استخراج مسائل قرآن میں یدطولیٰ تھا خداتعالیٰ حضرت مجدد الف ثانی پر رحمت کرے انہوں نے مکتوب صفحہ ۳۰۷ میں فرمایا ہے کہ امام اعظم صاحب کی آنیوالے مسیح کے ساتھ استخراج مسائل قرآن میں ایک روحانی مناسبت ہے۔‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد4صفحہ101)
حضرت امام ابو حنیفہؓ کو استخراج مسائل قرآن میں خاص دسترس تھی اس وجہ سے آپ بعض احادیث کی تاویل کرتے تھے یا انہیں چھوڑ دیتے تھے۔اس پر آپ کے مخالفین کی طرف سے اعتراض کیا جاتا تھا۔ حقیقت میں آپ کے فتاویٰ قرآن و حدیث کے منافی نہیں تھے۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’ امام صاحب موصوف اپنی قوت اجتہادی اور اپنے علم اور درایت اور فہم و فراست میں اَئمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل واعلیٰ تھے اور اُن کی خداداد قوت فیصلہ ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت عدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی قوت مدرکہ کو قرآن شریف کے سمجھنے میں ایک خاص دستگاہ تھی اور اُن کی فطر ت کو کلام الٰہی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے تھے۔ اسی وجہ سے اجتہاد واستنباط میں اُن کے لئے وہ درجہ علیا مسلّم تھا جس تک پہنچنے سے دوسرے سب لوگ قاصر تھے۔ سبحان اللہ اس زیرک اور ربّانی امام نے کیسی ایک آیت کے ایک اشارہ کی عزت اعلیٰ وارفع سمجھ کر بہت سی حدیثوں کو جو اس کے مخالف تھیں ردّی کی طرح سمجھ کر چھوڑ دیا اور جہلا کے طعن کا کچھ اندیشہ نہ کیا۔‘‘
(ازالہ اوہام۔روحانی خزائن جلد3 صفحہ385)
7۔ احکام شریعت پُرحکمت ہیں
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بڑے زور کے ساتھ ان مفاسد کو دورکردیا جو اس زمانے میں اسلام کے مخالفین کی طرف سے پھیلائے جارہے تھے اوراسلام کی تعلیم پر طرح طرح کے اعتراضات کئے جارہے تھے۔ آپ نے اسلام کی مدافعت کا حق ادا کردیا ۔ آپؑ کی معرکۃ الآراء کتاب کا تعارف تو اس کے نام سے ظاہر ہے۔
’’اَلْبَرَاہِیْنُ الْاَحْمَدِیَّۃُ عَلٰی حَقِیَّۃِ کِتَابِ اللّٰہِ الْقُرَْآنِ وَالنَّبُوَّۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ ‘‘
یعنی کتاب اللہ کی سچائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر احمدی دلائل اوربراہین۔
اس کتاب میں آپ نے اسلام کی پاکیزہ تعلیم کے سچے اور برحق ہونے کے ناقابل تردید شواہد پیش فرمائے اور یہ ثابت فرمایا کہ اسلام کی تعلیم عین فطرتی تعلیم ہے اس کے تمام مسائل انسان کی بھلائی اورانسانی فطرت اورزندگی کے عین مطابق ہیں گویا تمام احکام حق محض ہیں۔آپ نے فرمایا
’’ آج رُوئے زمین پر سب الہامی کتابوں میں سے ایک فرقان مجید ہی ہے کہ جس کا کلامِ الٰہی ہونا دلائل قطعیہ سے ثابت ہے۔جس کے اصول نجات کے ،بالکل راستی اور وضع فطرتی پر مبنی ہیں۔ جس کے عقائد ایسے کامل اور مستحکم ہیں جو براہین قویہ ان کی صداقت پر شاہد ناطق ہیں جس کے احکام حق محض پر قائم ہیں جس کی تعلیمات ہریک طرح کی آمیزش شرک اور بدعت اور مخلوق پرستی سے بکلی پاک ہیں جس میں توحید اور تعظیم الٰہی اور کمالات حضرت عزت کے ظاہر کرنے کے لئے انتہا کا جوش ہے جس میں یہ خوبی ہے کہ سراسر وحدانیت جنابِ الٰہی سے بھرا ہوا ہے اور کسی طرح کا دھبّہ نقصان اور عیب اور نالائق صفات کا ذاتِ پاک حضرت باری تعالیٰ پر نہیں لگاتا اور کسی اعتقاد کو زبردستی تسلیم کرانا نہیں چاہتا بلکہ جو تعلیم دیتا ہے اس کی صداقت کی وجوہات پہلے دکھلا لیتا ہے اور ہرایک مطلب اور مدعا کو حجج اور براہین سے ثابت کرتا ہے۔ اور ہریک اصول کی حقیّت پر دلائل واضح بیان کرکے مرتبہ یقین کامل اور معرفت تام تک پہنچاتا ہے۔ اور جو جو خرابیاں اور ناپاکیاں اور خلل اور فساد لوگوں کے عقائد اور اعمال اور اقوال اور افعال میں پڑے ہوئے ہیں، ان تمام مفاسد کو روشن براہین سے دور کرتا ہے اور وہ تمام آداب سکھاتا ہے کہ جن کاجاننا انسان کو انسان بننے کے لئے نہایت ضروری ہے اور ہریک فساد کی اسی زور سے مدافعت کرتا ہے کہ جس زور سے وہ آج کل پھیلا ہوا ہے۔ اس کی تعلیم نہایت مستقیم اور قوی اور سلیم ہے گویا احکام قدرتی کا ایک آئینہ ہے اور قانونِ فطرت کی ایک عکسی تصویر ہے اور بینائی دِلی اور بصیرتِ قلبی کے لئے ایک آفتابِ چشم افروز ہے ۔‘ ‘
(براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد1صفحہ81،82)
اپنے موقف کے حق میں آپ نے زورداردلائل بیان فرمائے۔تعدّد ازدواج ہو یا ورثہ کی تعلیم جہاں عورتوں کے لئے نصف حصہ جائیداد میں مقرر ہے سب کے عقلی جواب دئیے۔ متعہ کا اعتراض ہو یا متبنّی بنانے کا مسئلہ ہر ایک بات کی حقیقت کھول کر رکھ دی۔ نیوگ پر آپ کی طرف سے اُٹھائے جانے والے اعتراضات ہوں یا اُن کے جواب میں حلالہ کے مسئلہ کی آڑ لے کر دشمنوں کا جوابی اعتراض ہوہر مسئلہ کو نکھار کر رکھ دیا۔
آپ نے ارکانِ نماز کی حکمتیں بیان فرمائیں اور وضو اور نماز کے باطنی فوائد کے علاوہ ظاہری طبّی فوائد بھی بیان فرمائے۔ اوقات نماز کی فلاسفی بیان فرمائی اورثابت فرمایا کہ نماز کے متفرق اوقات زندگی کے حقائق اورحالات کے مطابق ہیں۔ بچے کے کان میں اذان دینے کا مسئلہ ہو یا نماز باجماعت میں ظاہری مضمر فوائد ہوں اورحج کی حکمتیں سب مسائل کو عقلی دلائل سے پیش فرمایا۔
آپ نے اپنی تحریرات اور تقاریر میںمنقولی اور معقولی ہردو طرح کے دلائل پیش فرماتے ہوئے اعتراضات کے جواب دئیے۔اورایسے معترضین کو جومنقولی دلائل کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے عقلی دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کی۔ فرمایا
’’ یہ بات اجلیٰ بدیہات ہے جو سرگشتۂ عقل کو عقل ہی سے تسلّی ہوسکتی ہے اور جو عقل کا رہزدہ ہے وہ عقل ہی کے ذریعہ سے راہ پر آسکتا ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ ہرچہارحصص روحانی خزائن جلد1صفحہ67)
پردہ کے مسئلہ کو معقول اور فطرت کے عین مطابق قراردیتے ہوئے آپؑ نے انسانی ضرورتوں کی مثال پیش فرمائی ۔فرمایا
’’جیسے بہت سے تجارب کے بعد طلاق کا قانون پاس ہوگیا ہے اسی طرح کسی دن دیکھ لو گے کہ تنگ آکراسلامی پردہ کے مشابہ یورپ میں بھی کوئی قانون شائع ہوگا۔ ورنہ انجام یہ ہوگا کہ چارپایوں کی طرح عورتیں اورمرد ہوجائیں گے اور مشکل ہوگا کہ یہ شناخت کیا جائے کہ فلاں شخص کس کا بیٹا ہے۔ ‘‘
(نسیم دعوت ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ434)
8۔ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کی عزت و تکریم
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے شریعت کی بعض ایسی رخصتوں اور سہولتوں پر عمل فرمایا جنہیں خدا نے جائز قراردیا ہے لیکن لوگوں نے از خود ایسی باتوں پر عمل چھوڑدیا تھا۔ مثلًا نمازوں کا جمع کرنا انسانوں کی سہولت کے پیشِ نظر جائز رکھا گیا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علاوہ سفروں اورموسمی خرابیوں کے خالص دینی ضروریات کے لئے بھی نمازیں جمع کرنی پڑیں اور بعض اوقات کئی مہینے تک نمازیں جمع ہوتی رہیں۔ بعض معترضین نے اس پر اعتراض کیا تو آپ نے بڑی نرمی اور محبت سے اس بات کوسمجھایا کہ میں شریعت کے حکم کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم پیشگوئی کو پورا کرنے کی خاطر نمازیں جمع کرتا ہوں اور نماز موقوتہ کے مسئلہ کو خدانخواستہ استخفاف کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ فرمایا
’’ اس وقت جو ہم نمازیں جمع کرتے ہیں تواصل بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی تفہیم ، القاء اورالہام کے بِدوں نہیں کرتا بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ میں ظاہر نہیں کرتا مگر اکثر ظاہر ہوتے ہیں۔ جہاں تک خدا نے مجھ پر اس جمع بین الصلوٰتین کے متعلق ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے تُجْمَعُ لَہُ الصَّلوٰۃُ کی عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جواَب پوری ہورہی ہے۔‘‘
(الحکم 24نومبر1902ء صفحہ1)
ایک اور موقعہ پر فرمایا
’’دیکھو ہم بھی رخصتوں پر عمل کرتے ہیں۔ نمازوں کو جمع کرتے ہوئے کوئی دو ماہ سے زیادہ ہوگئے ہیں۔بہ سبب بیماری کے اور تفسیر سورۂ فاتحہ کے لکھنے میں بہت مصروفیت کے ایساہورہا ہے اور ان نمازوں کے جمع کرنے میں تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ کی حدیث بھی پوری ہورہی ہے کہ مسیح کی خاطر نمازیں جمع کی جائیں گی۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ مسیح موعود نماز کے وقت پیش امام نہ ہوگا، بلکہ کوئی اور ہوگا اور وہ پیش امام مسیح کی خاطر نمازیں جمع کرائے گا۔ سو اب ایسا ہی ہوتاہے جس دن ہم زیادہ بیماری کی وجہ سے بالکل نہیں آسکتے۔ اس دن نمازیں جمع نہیں ہوتیں اور اس حدیث کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیارکے طریق سے یہ فرمایا ہے کہ اُس کی خاطر ایساہوگا۔ چاہیے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کی عزت و تحریم کریں اور ان سے بے پرواہ نہ ہوویں ورنہ یہ ایک گناہِ کبیرہ ہوگا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو خِفّت کی نگاہ سے دیکھیں۔ خداتعالیٰ نے ایسے ہی اسباب پیدا کردیئے کہ اتنے عرصے سے نمازیں جمع ہورہی ہیں ورنہ ایک دودن کے لئے یہ بات ہوتی تو کوئی نشان نہ ہوتا۔ ہم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ لفظ اور حرف حرف کی تعظیم کرتے ہیں۔‘‘
(الحکم 17فروری 1901ء صفحہ13،14)
9۔ شریعت کی رخصتوں پر بھی عمل ضروری ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی شریعت کی حقیقت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا اور احکام کی غرض وغایت پر زوردیا۔خدا تعالیٰ نے انسان کو شریعت کے احکام دے کر تنگی اور تکلیف میں نہیں ڈالا بلکہ بعض جگہ رخصتیں اوررعایتیں بھی دی ہیں۔لیکن لوگ عمومًا تنگی والے راستے کو اختیار کرتے ہیں۔ آپؑ نے اپنی جماعت کو سمجھایا کہ خدا کی طرف سے دی گئی رخصتیںبھی اس کے احکام کی طرح اہم ہیںاوراُن پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔
ایک ایسے ہی موقع پر جبکہ ایک مہمان کی مہمان نوازی کے بارہ میں آپ نے ہدایت فرمائی اوراس سے آپ نے پوچھا کہ آپ مسافر ہیں آپ نے روزہ تو نہیں رکھاہوگا۔ اس نے کہا کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ اس پر آپؑ نے فرمایا
’’ اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے۔ خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پر بھی تو عمل رکھنا چاہئے۔ میں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالتِ سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے نہ اپنی مرضی اوراللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے جو حکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے۔‘‘
(الحکم 31جنوری 1907، صفحہ14)
خدا تعالیٰ کی رخصتوں پر عمل کر نے کے ضمن میں آپ نے شریعت کے اس نقطہ کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ نے دین میں کوئی حرج اورتنگی نہیں رکھی۔ فرمایا
’’شریعت کی بناء نرمی پر ہے سختی پر نہیں ہے۔ ‘‘
(الحکم10اگست 1903ء صفحہ20)
10۔ شعائراللہ کا احترام اور دینی غیرت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتاویٰ میں ہمیںیہ خصوصی انداز نظر آتا ہے کہ آپ مسائل کی صرف ظاہری صورتوں پر ہی نظر نہیں رکھتے تھے بلکہ تحدیثِ نعمت اور اظہارِ شکرگزاری کا جذبہ ہمیشہ پیشِ نظر رہتا تھا۔ اسی وجہ سیبعض دفعہ آپ نے اپنی پیشگوئیوں کے پورا ہونے پرشکرگزاری کے اظہار کے طورپر پر تکلف دعوت بھی کی۔
حضور علیہ السلام اپنے بچوں کو بھی شعائراللہ میں سے سمجھتے تھے۔ اسی حوالے سے یہ واقعہ قابلِ ذکر ہے کہ جون 1897ء میں آپ نے اپنے صاحبزادہ حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمدؓصاحب کی آمین کی تقریب منعقد کی جس میں آپ نے اپنے احباب کو پرتکلف دعوت دی اوراس موقعہ پر آپ نے ایک نظم لکھی
حمدوثناء اسی کو جو ذات جاودانی
یہ نظم آمین کی تقریب میں پڑھ کر سنائی گئی اندرزنانہ میں خواتین پڑھتی تھیں اورباہر مرد اوربچے پڑھتے تھے۔
(تاریخ احمدیت جلد1صفحہ611، 612)
اس کے بعد دسمبر1901ء میں حضور ؑنے اپنے بچوں صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ ، صاحبزادہ مرزا شریف احمدؓ اورصاحبزادی نواب مبارکہ بیگم ؓصاحبہ کی تقریبِ آمین منعقد کی۔ اس موقعہ پر حضرت نواب محمد علی خانؓ صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت اقدس میں تحریرکیا کہ
’’حضور کے ہاں جو بشیر، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین ہوئی ہے اس میں جو تکلفات ہوئے ہیں وہ گو خاص صورت رکھتے ہیں کیونکہ مخدوم زادگان پیشگوئیوں کے ذریعے پیدا ہوئے۔ ان کے ایسے مواقع پر جواظہارِ خوشی کی جائے وہ کم ہے مگر ہم لوگوں کے لئے کیونکہ حضور ؑ بروزِ محمد ؐ ہیں اس لئے ہمارے لئے سنت ہوجائیں گے۔ اس پر سیر میں کچھ فرمایا جائے۔‘‘
اس پرحضرت اقدس نے سیر کرتے ہوئے تقریر فرمائی کہ
’’ الاعمال بالنیات ایک مسلّمہ مسئلہ اور صحیح ترین حدیث ہے۔ اگر کوئی ریاء سے اظہار علی الخلق اور تفوّق علی الخلق کی غرض سے کھانا وغیرہ کھلاتا ہے توایسا کھانا وغیرہ حرام ہے یا معاوضہ کی غرض سے جیسے بھاجی وغیرہ۔ مگر اگر کوئی تشکّر اور اللہ کی رضاجوئی کی نیّت سے خرچ کرتا ہے بلا ریاومعاوضہ تواس میں حرج نہیں۔‘‘
(اصحابِ احمد جلد2صفحہ551۔ سیرت حضرت نواب محمد علی خان صاحب۔نیا ایڈیشن )
اسی طرح ایک موقع پر آپ نے فرمایا
’’میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کے لا انتہاء فضل اورانعام ہیں ۔ ان کی تحدیث مجھ پر فرض ہے پس میںجب کوئی کام کرتاہوں تو میری غرض اورنیت اللہ تعالیٰ کے جلال کا اظہارہوتی ہے۔ ایسا ہی اس آمین کی تقریب پر بھی ہوا ہے۔ یہ لڑکے چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہیں اور ہر ایک ان میں سے خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کا زندہ نمونہ ہیں اس لئے میں اللہ تعالیٰ کے ان نشانوں کی قدرکرنی فرض سمجھتا ہوں۔‘‘
(الحکم 10اپریل 1903ء صفحہ2)
اسی طرح حضرت مسیح موعودعلیہ السلام دینی غیرت اورحمیّت کے جذبہ کو پیشِ نظر رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ نے اسی جذبہ کے پیشِ نظر اسلام کی طرف سے مدافعت کا خوب حق ادا کیا۔ جب دشمنانِ اسلام، اسلام پر حملہ آور ہورہے تھے آپ نے تحریری او رتقریری ہر دو ذریعوں سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے جواب دئیے اور بعض مواقع پر آپ کے ہندوؤں اور عیسائیوں کے ساتھ مباحثات بھی ہوئے۔ ایک ایسے ہی موقع پر جب آپ کا پادری عبداللہ آتھم کے ساتھ مباحثہ ہوا تو وہ گرمی کا موسم تھا۔ حضرت میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی کی روایت ہے کہ
’’ پانی کی ضرورت پڑتی تھی لیکن پانی اپنے ساتھ لے جایا جاتا تھا۔عیسائیوں کے چاہ (کنوئیں)کا پانی نہیں لیا جاتا تھا کیونکہ عیسائی قوم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے والی ہے لہٰذا اِن کے چاہ کا پانی پینا حضور پسند نہ فرماتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد2صفحہ198 )
عام طور پر عیسائیوں، ہندوؤں اور دیگر اقوام کے ساتھ معاشرت کے لحاظ سے تعلقات رکھے جاتے تھے لیکن جہاں دینی غیرت کا معاملہ آتا تھا وہاں اس حد تک ان سے قطع تعلق کیا جاتا تھا جب تک کہ وہ اپنے طریق عمل کونہ بدل لیں۔ ایک ایسے ہی موقعہ پرحضور سے دریافت کیا گیا کہ عیسائیوں کے ساتھ کھانا اورمعانقہ کرنا جائز ہے ؟ حضور نے فرمایا:
’’ میرے نزدیک ہرگز جائز نہیں یہ غیرت ایمانی کے خلاف ہے کہ وہ لوگ ہمارے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اورہم اُن سے معانقہ کریں۔ قرآن شریف ایسی مجلسوں میں بیٹھنے سے بھی منع فرماتا ہے جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر ہنسی اُڑائی جاتی ہے اورپھر یہ لوگ خنزیرخور ہیں۔ ان کے ساتھ کھانا کھانا کیسے جائز ہوسکتا ہے ؟
(الحکم17؍اگست 1902ء صفحہ10)
11۔ خشک مسائل سے اجتناب
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو اسلام کی سچی اور حقیقی تعلیم پر عمل کرنے کی ہدایت دی۔ عام طورپر لوگ جزوی ، فروعی اورخشک مسائل پر زیادہ توجہ دیتے تھے اور حقیقت سے دور جاپڑتے تھے۔ حضورؑ نے ایسے بعض پیش آمدہ مسائل میں غیر حقیقی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ روایتی کتب فقہ میں چونکہ ایسے مسائل موجود تھے جنہیں پڑھ کر بعض لوگ سمجھتے تھے کہ ہمیں بہت علم حاصل ہوگیا ہے اور اب ہم فقہ کے ماہربن گئے ہیں اس لئے وہ ان مسائل کی ظاہری صورتوں پرہی زور دیتے رہتے تھے ۔خاص طورپرحنفیوں میں یہ کمزوری تھی اوراپنے اس طرزِ عمل پر وہ بے جا فخر بھی کرتے تھے اور اپنے آپ کو مقلّد کہتے تھے ۔ اسی لئے آپ نے بعض ایسے روایتی فقہی مسائل سے احتراز فرمایا۔مثلًا
آپ ؑ سے سوال کیا گیا کہ یہ جو مسئلہ ہے کہ جب چوہا یا بلّی یا مرغی یا بکری یا آدمی کنوئیںمیں مرجائیں تو اتنے دَلوْ (ڈول) پانی نکالنا چاہئے۔ اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ کیونکہ پہلے تو ہمارا یہی عمل تھا کہ جب تک رنگ ، بو، مزانہ بدلے پانی کو پاک سمجھتے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا
’’ہمارا تو وہی مذہب ہے جو احادیث میں آیا ہے یہ جوحساب ہے کہ اتنے دَلْو نکالو اگر فلاں جانور پڑے اوراتنے اگر فلاں پڑے، یہ ہمیں تو معلوم نہیں اور نہ اس پر ہمارا عمل ہے ۔‘‘
عرض کیا گیا کہ حضور ؑ نے فرمایا ہے جہاں سنت صحیحہ سے پتا نہ ملے وہاں فقہ حنفی پرعمل کرلو۔ فرمایا
’’فقہ کی معتبر کتابوں میں بھی کب ایسا تعیُّن ہے ہاں نجات المومنین میں لکھا ہے۔ سو اس میں تو یہ بھی لکھا ہے ۔
سر ٹوئے وچ دے کے بیٹھ نماز کرے
کیا اس پر کوئی عمل کرتا ہے اور کیا یہ جائز ہے جبکہ حیض و نفاس کی حالت میں نماز منع ہے۔ پس ایسا ہی یہ مسئلہ بھی سمجھ لو۔مَیں تمہیں ایک اصل بتا دیتا ہوں کہ قرآنِ مجید میں آیا ہے
وَالْرُّجْزَ فَاھْجُرْ (المدثر:۶)
جب پانی کی حالت اس قسم کی ہوجائے جس سے صحت کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو تو صاف کر لینا چاہئے۔ مثلًا پتے پڑ جاویں یا کیڑے وغیرہ۔ (حالانکہ اس پریہ مُلّاں نجس ہونے کا فتویٰ نہیں دیتے) باقی یہ کوئی مقدار مقرر نہیں۔ جب تک رنگ و بو ومزا نجاست سے نہ بدلے وہ پانی پاک ہے۔‘‘
(بدر یکم اگست 1907ء صفحہ12)
اسی طرح آپ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ
میرا بھائی فوت ہوگیا ہے میں اس کی قبر پکّی بناؤں یا نہ بناؤں ؟اس پر آپؑ نے فرمایا
’’ اگر نمود اوردکھلاؤ کے واسطے پکّی قبریں اور نقش و نگار اورگنبد بنائے جاویں تو یہ حرام ہیں لیکن اگر خشک مُلّا کی طرح یہ کہا جاوے کہ ہر حالت اور ہر مقام میں کچی ہی اینٹ لگائی جاوے تو یہ بھی حرام ہے۔
اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ
عمل نیّت پر موقوف ہیں۔‘‘
(ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ صفحہ253)
12۔ اشدّ ضرورتوں میں حُکم بدل جاتے ہیں
شریعت نے جہاں ہمیں زندگی کے ہراہم پہلو کے لئے مفصل تعلیم دی ہے وہاں انسانی مجبوریوں اورمعذوریوں کا بھی لحاظ رکھا ہے اور اضطرار کے حالات میں رعایت اور سہولت کو بھی مدّنظر رکھا گیا ہے۔افریقہ سے ڈاکٹر محمد علی خان صاحب نے استفسار کیا کہ اگر ایک احمدی بھائی نماز پڑھ رہا ہو اورباہر سے اس کا افسر آجائے اور دروازہ کو ہلا ہلاکر اورٹھونک ٹھونک کر پکارے اور دفتر یا دوائی خانہ کی چابی مانگے تو ایسے وقت میں کیا کرنا چاہئے ؟ اسی وجہ سے ایک شخص نوکری سے محروم ہوکر ہندوستان واپس چلا گیا ہے۔اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایاکہ
’’ ایسی صورت میں ضروری تھا کہ وہ دروازہ کھول کر چابی افسر کو دے دیتا ۔ ( یہ ہسپتال کا واقعہ ہے ۔ اِ س لئے فرمایا ) کیونکہ اگر اس کے التواء سے کسی آدمی کی جان چلی جاوے تو یہ سخت معصیت ہوگی۔ احادیث میں آیا ہے کہ نماز میں چل کر دروازہ کھول دیا جاوے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی ۔ایسے ہی اگرلڑکے کو کسی خطرہ کا اندیشہ ہو یا کسی موذی جانور سے جو نظر پڑتا ہو ضرر پہنچتا ہو تو لڑکے کو بچانا اورجانور کو ماردینا اس حال میں کہ نماز پڑھ رہا ہے گناہ نہیں ہے اور نماز فاسد نہیں ہوتی بلکہ بعضوں نے یہ بھی لِکھا ہے کہ گھوڑا کھل گیا ہو تو اُسے باندھ دینا بھی مفسدِ نماز نہیں ہے۔ کیونکہ وقت کے اندر نماز تو پھر بھی پڑھ سکتا ہے۔‘‘
(البدر24نومبر،یکم دسمبر1904ء صفحہ4)
سونے چاندی اور ریشم کا ضرورتًا استعمال تو معروف مسئلہ ہے۔ اسی حوالے سے آپ سے سوال کیا گیا کہ چاندی وغیرہ کے بٹن استعمال کئے جاویں؟ اس پر آپ نے فرمایا
’’ تین ، چارماشہ تک توحرج نہیں،لیکن زیادہ کا استعمال منع ہے۔اصل میں سونا چاندی عورتوں کی زینت کے لیے جائز رکھا ہے۔ہاں علاج کے طور پر ان کا استعمال منع نہیں۔جیسے کسی شخص کو کوئی عارضہ ہو اور چاندی سونے کے برتن میں کھانا طبیب بتلاوے تو بطور علاج کے صحت تک وہ استعمال کرسکتا ہے۔ایک شخص آنحضرت ﷺ کے پاس آیا۔اُسے جوئیں بہت پڑی ہوئی تھیں۔آپؐ نے حکم دیا کہ تو ریشم کا کرتہ پہنا کر اس سے جوئیں نہیں پڑتیں۔ (ایسے ہی خارش والے کے لیے ریشم کا لباس مفید ہے)۔ ‘‘
(البدر24؍اگست 1904ء صفحہ8)
13۔ عُرف کا خیال رکھنا ضروری ہے
احکام شریعت میں موقع و محل کی رعایت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اوربہت سے ایسے مسائل ہیں کہ اگر ان میں معروضی حالات کو مدّ نظر نہ رکھا جائے تو احکام شریعت پر عمل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔مثلًا شریعت نے بیمار اور مسافر کے لئے روزہ رکھنے میں رخصت دی ہے تاہم بیماری کی تفاصیل اورسفر کی حدود کاذکر نہیں کیا۔ اسی طرح سفر میں نماز قصرکرنے کی اجازت دی ہے لیکن سفر کی حدّ بیان نہیں فرمائی ۔اس بارہ میں فقہاء کی آراء کی روشنی میں یہ بحثیں ہوتی تھیں کہ کتنا سفر ہو تو سفر کہلائے گا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے عُرف کے اصول کو مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ مسئلہ بڑی آسانی سے حل فرمادیا ۔
ایک شخص نے پوچھا کہ مجھے دس پندرہ کوس تک اِدھر اُدھر جانا پڑتا ہے۔میں کس کوسفر سمجھوں اور نمازوں میں قصر کے متعلق کس بات پر عمل کروں؟ فرمایا
’’میرامذہب یہ ہے کہ انسان بہت دقتیں اپنے اُوپر نہ ڈال لے۔ عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں، خواہ وہ دوتین کوس ہی ہو۔ اس میں قصروسفر کے مسائل پر عمل کرے۔اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں، مگر کسی کے دل میں خیال نہیں آتاکہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گٹھری اُٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتاہے۔ شریعت کی بِنا دِقّت پر نہیں ہے۔ جس کو تم عُرف میں سفر سمجھو، وہی سفر ہے۔‘‘
(الحکم 17؍فروری 1901ء صفحہ13)
اسی طرح خریدوفروخت کے معاملات میں بھی عُرف کا خیال رکھنا ضروری ہے جو مروجہ قانون ہو اور سب لوگ اس پر عمل کررہے ہوں اور کوئی لڑائی جھگڑا بھی نہ ہو تو اس عُرف پر بھی عمل کرنا چاہئے۔
ایک شخص نے سوال کیا کہ ریلی برادرز وغیرہ کارخانوں میں سرکاری سیراسّی روپیہ کا دیتے ہیں اور لیتے اکاسی روپیہ کا ہیں کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا
’’ جن معاملات بیع وشراء میں مقدمات نہ ہوں، فساد نہ ہوں تراضی فریقین ہو اورسرکار نے بھی جُرم نہ رکھا ہو عُرف میں جائز ہو وہ جائز ہے۔ ‘‘
(الحکم 10اگست 1903ء صفحہ19)
14۔ حکومتِ وقت کی اطاعت کی تعلیم
مسلمانوں کے جس ادبار اور پستی کے وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مبعوث ہوئے اس دور میں مسلمان سیاسی ، سماجی، مذہبی ، ہرلحاظ سے پسماندہ ہوچکے تھے ۔ اپنے سابقہ شاندار ماضی کو یادکرتے ہوئے محکومی اورکمزوری ان کے لئے بھاری ہورہی تھی۔ جس دور میں خلافت بنو امیہ،بنوعباس اورعثمانی حکومتیں بڑے بڑے علاقوں پر حکومت کرتی تھیں اس دور میں مذہبی مسائل میں بھی بہت سی جگہوں پر بادشاہ وقت کا ذکر ہوتا تھا اور بعض مسائل میں امامت کا حقدار بادشاہ وقت کو قراردیا جاتا تھا۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی مسلمان صدیوں تک حکمران رہے لیکن بعد میں پستی اورذلّت بھی دیکھنی پڑی۔ چونکہ ماضی میں دارالاسلام اوردارالحرب جیسی اصطلاحیں وضع ہوچکی تھیں اس لئے برصغیر میں مسلمانوں کو اپنی حکومت نہ ہونے سے یہ احساس تھا کہ یہ دارالاسلام نہیں بلکہ دارالحرب ہے اورخصوصًا 1857ء کے غدر کی بنیادمیں بھی یہ ایک غلط تصوّر تھا۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی جماعت کو ہر قسم کی بغاوت ، فساد، اورنافرمانی سے بچنے اورسچے دل سے حکومت وقت کی اطاعت کرنے کی تعلیم دی۔ آپ نے یہ مسئلہ باربار اور کھول کر واضح کیا کہ چونکہ انگریزی حکومت میں مسلمانوں کی نہ صرف جان و مال محفوظ ہے بلکہ مذہبی آزادی اورامن بھی حاصل ہے۔ اس لئے اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہر قسم کی بغاوت اورفساد سے بچنا چاہئے اور حکومت کے ساتھ پورا تعاون کرنا چاہئے۔ آپ ؑ نے فرمایاکہ میرے پانچ بڑے اصول ہیں۔ان اصولوں میںسے چوتھے اصول کی یوں تفصیل بیان فرمائی کہ
’’یہ کہ اس گورنمنٹ مُحسنہ کی نسبت جس کے ہم زیرِ سایہ ہیں یعنی گورنمنٹ انگلشیہ کوئی مفسدانہ خیالات دل میں نہ لانا اورخلوصِ دل سے اس کی اطاعت میں مشغول رہنا۔ ‘‘
(کتاب البریۃ۔ روحانی خزائن جلد13صفحہ348)
اسی طرح حکومت کی اطاعت کے بارہ میں فرمایا
’’ حکام کی اطاعت اور وفاداری ہر مسلمان کا فرض ہے ۔ وہ ہماری حفاظت کرتے ہیں اور ہر قسم کی مذہبی آزادی ہمیں دے رکھی ہے۔ میں اس کو بڑی بے ایمانی سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ کی اطاعت اور وفاداری سچے دل سے نہ کی جاوے۔ ‘‘
(الحکم 31جولائی،10اگست 1904ء صفحہ13)
قرآن کریم نے
اَطِیْعُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنکُم
کا جو حکم دیا ہے بعض لوگ اس کی یہ تشریح کرتے تھے کہ اللہ، رسول اور اپنے حکام کی اطاعت کرنی چاہئے یعنی صرف مسلمان حکمران کی اطاعت کرنی جائز ہے!
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی حکم کا حوالہ دے کر’’مِنْکُمْ‘‘ میں ان تمام حکمرانوں کو بھی شامل فرمایا جو خلافِ شریعت حکم پر عمل کرنے پر مجبور نہیں کرتے۔ فرمایا
’’اولی الامر کی اطاعت کا صاف حکم ہے اور اگر کوئی کہے کہ گورنمنٹ ’’مِنْکُمْ‘‘میں داخل نہیں تو یہ اس کی صریح غلطی ہے۔ گورنمنٹ جو بات شریعت کے موافق کرتی ہے۔ وہ مِنْکُمْ میں داخل ہے۔ جو ہماری مخالفت نہیں کرتا وہ ہم میں داخل ہے۔ اشارۃ النص کے طورپر قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کی اطاعت کرنی چاہئیاوراس کی باتیں مان لینی چاہئیں۔‘‘
(رسالہ الانذارصفحہ 15۔تقریر حضرت اقدس ؑ فرمودہ 2مئی 1898ء ۔ ملفوظات جلد1صفحہ171)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد کی پاکیزہ تعلیم کی حقیقت واضح کرنے کے لئے تحریری اورتقریری ہر طرح سے زوردار کوششیں کیں ۔خاص طورپر آپؑ نے ایک رسالہ لکھا
’’گورنمنٹ انگریزی اور جہاد‘‘ جوروحانی خزائن کی جلد17میں موجود ہے۔اس میں آپ نے جہاد کی تعلیم کی پوری تفصیل بیان فرمائی اورانگریزوں کے ساتھ جہاد کرنے اوران کی حکومت کے خلاف باغیانہ روش اختیار کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی اور آپ نے اس مسئلہ کو اپنے منظوم میں بھی پیش فرمایا۔فرماتے ہیں:۔؎
اب چھوڑدو جہاد کا اے دوستو خیال
دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
اب آگیا مسیح جو دیں کا امام ہے
دیں کی تمام جنگوں کااب اختتام ہے
15۔ نئی ایجادات سے فائدہ اُٹھانا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ایک ایسے وقت میں ہوئی جب زمانہ اپنے رنگ ڈھنگ بدل رہا تھا۔انیسویں صدی عیسوی میں سائنسی ایجادات میں اس قدر تیزی آئی جو اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔ نت نئی ایجادات نے زندگی کا منظر نامہ بالکل بدل کر رکھ دیا۔ تار، ریل، چھاپہ خانے، فوٹوگرافی، فونوگراف، ٹیکہ، وغیرہ ایسی ایجادات تھیں جس کا خاص تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ تھا۔ حضورؑ نے بار بار فرمایا کہ اس دور میں روحانی اورجسمانی ہردوبرکات کی بارش ہورہی ہے۔نئی ایجادات نے دنیا کو قریب ترکردیا۔پریس کی ایجاد نے ہر مذہب کے ماننے والوں میں ایک جوش پیدا کردیا کہ وہ اپنے مذہب کی خوب اشاعت کریں۔ اس ایجاد سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے عیسائی پادریوں نے اسلام کے خلاف کثرت کے ساتھ کتابیں لکھ کر شائع کروائیں اورانہیں سارے ہندوستان میں پھیلادیا۔ اسی طرح ہندوؤں نے بھی اسلام کواپنا تختہ مشق بنایا اورکثرت سے اعتراضات سے بھری ہوئی کتابیں لکھیں لیکن دوسری طرف مسلمانوں کی پستی کا یہ حال تھا کہ مدافعت تو درکنار ایسی ایجادات کو بھی خلافِ اسلام قراردینے پر تُل گئے۔ خاص طورپر فوٹوگرافی پر بہت اعتراض کئے گئے اورجب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فوٹو اتروائی تو ایک شور مچ گیا کہ دیکھو اس نے ایک حرام کام کیا ہے۔
آپ نے قرآن کریم اور حدیث کی روشنی میں دلائل کے ساتھ اس مسئلہ کو واضح فرمایاکہ حدیث میں جن تصویروں کی ممانعت آئی ہے اس کاموجودہ دور کی فوٹوگرافی سے تعلق نہیں۔ فوٹو توایک عکس ہے جیسے آنکھ میں تصویر بنتی ہے، پانی میں عکس بنتا ہے۔ فرمایا
’’ یہ آلہ جس کے ذریعہ سے اب تصویر لی جاتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایجاد نہیں ہوا تھااور یہ نہایت ضروری آلہ ہے جس کے ذریعہ سے بعض امراض کی تشخیص ہو سکتی ہے ایک اور آلہ تصویر کا نکلا ہے جس کے ذریعہ سے انسان کی تمام ہڈیوں کی تصویر کھینچی جاتی ہے اور وَجعُ المَفَاصِل و نَقرس وغیرہ امراض کی تشخیص کے لئے اس آلہ کے ذریعہ سے تصویر کھینچتے ہیں اور مرض کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ ایسا ہی فوٹو کے ذریعہ سے بہت سے علمی فوائد ظہور میں آئے ہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد21صفحہ366)
اسی طرح ریل کی سواری کی ایجاد سے بھی آپ نے فائدہ اُٹھایا اوراسے اپنے لئے نشان قراردیا۔ فونوگراف میں نظم ریکارڈ کی گئی جو آپ نے خاص اس مقصد کے لئے لکھی تھی جس کا پہلا شعریہ تھا
آواز آرہی ہے یہ فونوگراف سے
ڈھونڈو خدا کو دِل سے نہ لاف و گزاف سے
ہر نئی ایجاد اورفن کو حضور نے اس شرط پر درست اورجائز قراردیا کہ اگر اسے شریعت کی ہدایت کے مطابق استعمال کیا جائے تو ایسا کام جائز ہے۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ عکسی تصویر لینا شرعًا جائز ہے؟
فرمایاکہ
’’یہ ایک نئی ایجاد ہے پہلی کتب میں اس کاذکر نہیں۔ بعض اشیاء میں ایک منجانب اللہ خاصیت ہے جس سے تصویر اتر آتی ہے۔ اگر اس فن کو خادم شریعت بنایا جاوے تو جائز ہے۔‘‘
(بدر24، 31دسمبر1908ء صفحہ5)
16۔ نئے اجتہاد کی ضرورت ہے
جیسا کہ پہلے ذکرہوچکا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ایک ایسے وقت پر ہوئی جب دنیا میں بڑی تیزی کے ساتھ تغیرات برپاہورہے تھے۔ رہن سہن اورتمدّن کی صورتیں بدل رہی تھیں۔ حکومتوں کے انداز اور لوگوں کے باہمی تعلقات میں تبدیلیاں ہورہی تھیں۔ قومیت کی جگہ بین الاقوامیت کا تصور ابھر رہا تھا۔ ملکوں کی جغرافیائی حدود میں تبدیلیاں ہورہی تھیں اورغیراقوام کے محکوم عوام میں آزادی کے خیالات پیدا ہورہے تھے۔ خریدوفروخت کے انداز میں ایسی تبدیلیاں پیداہوچکی تھیں جو گزشتہ حالات سے بالکل مختلف تھیں۔اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت کی جگہ کرنسی نوٹوں نے لے لی اور لباس اور خوراک میں بھی ایسی تبدیلیاں ہوئیں جن سے نئے سوالات نے جنم لیا ۔ سُود جسے اسلام نے قطعی حرام قراردیا ہے کئی ملکوں میں قانونی شکل اختیار کرگیا اورمختلف ممالک میں بینکنگ کا تصور عملی شکل میں سامنے آیا جہاں سارالین دین ہی سود کی بنیادپر ہورہاتھا۔ ایسے بدلے ہوئے حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کی راہنمائی فرمائی اورانہیں آئندہ کے لئے لائحہ عمل دیا۔
بعض ایسے مسائل تھے جن میں واضح طورپر سود لیا اوردیا جاتاتھا اوربعض ایسے مسائل تھے جن میں سود کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اگر یقین نہ بھی ہوتوشک ضرورپایاجاتا تھا۔ ایک ایسے موقعہ پر جب آپ سے سوال کیا گیاتو آپ نے فرمایا
’’ اس ملک میں اکثر مسائل زیروزبر ہوگئے ہیں۔ کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے اسی لئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ ‘‘
(البدر یکم و8نومبر1904ء صفحہ8)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت ابو حنیفہ کے ساتھ ایک طبعی وفطرتی مناسبت تھی اورفقہ حنفی کے مسائل کو آپ نے اہمیت بھی دی ہے لیکن اس کے باوجود آپ نے فرمایا کہ چونکہ زمانہ میں تغیّرات ہوچکے ہیں اس لئے بہت سی جگہوں پر فقہ حنفی کے مسائل سے بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ ایسی صورت میں احمدی علماء اپنے خداداداجتہاد سے کام لیں ۔ فرمایا
’’ ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سُنّت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اُس کو ترجیح دیں۔ اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اورنہ سنّت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کریں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اِس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنّت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اُس حدیث کو چھوڑ دیں۔‘‘
جواب دیں