اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

بیعت اور توبہ

بیعت میں جاننا چاہیے کہ کیا فائدہ ہے اور کیوں اس کی ضرورت ہے؟ جب تک کسی شے کا فائدہ اور قیمت معلوم نہ ہو تو اس کی قدر آنکھوں کے اندر نہیں سماتی جیسے گھر میں انسان کے کئی قسم کا مال واسباب ہوتا ہے.مثلاً روپیہ، پیسہ، کوڑی، لکڑی وغیرہ تو جس قسم کی جو شے ہے اسی درجہ کی اس کی حفاظت کی جاوے گی.ایک کوڑی کی حفاظت کے لیے وہ سامان نہ کرے گا جو پیسہ اور روپیہ کے لیے اسے کرنا پڑے گا اور لکڑی وغیرہ کو تو یونہی ایک کونہ میں ڈال دے گا.علیٰ ہذاالقیاس جس کے تلف ہونے سے اس کا زیادہ نقصان ہے اس کی زیادہ حفاظت کرے گا.اسی طرح بیعت میں عظیم الشان بات توبہ ہے.جس کے معنی رجوع کے ہیں.توبہ اس حالت کا نام ہے کہ انسان اپنے معاصی سے جس سے اُس کے تعلقات بڑھے ہوئے ہیں اور اس نے اپنا وطن انہیں مقرر کر لیا ہوا ہے گویا کہ گناہ میں اس نے بودوباش مقرر کر لی ہوئی ہے تو توبہ کے معنے یہ ہیں کہ اس وطن کو چھوڑنا اور رجوع کے معنے پاکیزگی کو اختیار کرنا.اب وطن کو چھوڑنا بڑا گراں گزرتا ہے اور ہزاروں تکلیفیں ہوتی ہیں.ایک گھر جب انسان چھوڑتا ہے تو کس قدر اسے تکلیف ہوتی ہے اور وطن کو چھوڑنے میں تو اس کو سب یار دوستوں سے قطع تعلق کرنا پڑتا ہے اور سب چیزوں کو مثل چارپائی، فرش و ہمسائے، وہ گلیاں، کوچے، بازار سب چھوڑ چھاڑ کر ایک نئے ملک میں جانا پڑتا ہے یعنی اس وطن میں کبھی نہیں آتا.اس کا نام توبہ ہے.معصیت کے دوست اَور ہوتے ہیں اور تقویٰ کے دوست اَور.اس تبدیلی کو صوفیاء نے موت کہا ہے.جو توبہ کرتا ہے اسے بڑا حرج اٹھانا پڑتا ہے اور سچی توبہ کے وقت بڑے بڑے حرج اس کے سامنے آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ رحیم کریم ہے.وہ جب تک اس کل کا نعم البدل عطا نہ فرماوے نہیں مارتا.

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ (البقرۃ: ۲۲۳)

میں یہی اشارہ ہے کہ وہ توبہ کر کے غریب، بیکس ہو جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس سے محبت اور پیار کرتا ہے اور اُسے نیکوں کی جماعت میں داخل کرتا ہے.دوسری قومیں خدا کو رحیم ، کریم خیال نہیں کرتیں.عیسائیوں نے خدا کو تو ظالم جانا اور بیٹے کو رحیم کہ باپ تو گناہ نہ بخشے اور بیٹا جان دے کر بخشوائے.بڑی بے وقوفی ہے کہ باپ بیٹے میں اتنا فرق.والد مولود میں مناسبت اخلاق عادات کی ہوا کرتی ہے (مگر یہاں تو بالکل ندارد) اگر اللہ رحیم نہ ہوتا تو انسان کا ایک دم گزارہ نہ ہوتا.جس نے انسان کے عمل سے پیشتر ہزاروں اشیاء اُس کے لئے مفید بنائیں تو کیا یہ گمان ہوسکتا ہے کہ توبہ اور عمل کو قبول نہ کرے.

ملفوظات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 1، صفحہ 2


Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے