اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ

ہر ناپسندیدہ بات دیکھ کر اصلاح کی کوشش کرو

عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَن رَأیَ مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغیِرّہٗ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ۔ (مسلم)

ترجمہ:۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ تم میں سے جو شخص کوئی خلافِ اخلاق یا خلافِ دین بات دیکھے تو اُسے چاہئے کہ اس بات کو اپنے ہاتھ سے بدل دے لیکن اگر اسے یہ طاقت حاصل نہ ہو تو اپنی زبان سے اس کے متعلق اصلاح کی کوشش کرے اور اگر اسے یہ طاقت بھی نہ ہو تو کم از کم اپنے دل میں اسے برا سمجھ کر (دعا کے ذریعہ) بہتری کی کوشش کرے اور آپ فرماتے تھے کہ یہ سب سے کمزور قسم کا ایمان ہے۔
تشریح : جہاں اوپر والی حدیث میں جہاد فی سبیل اللہ کی تحریک کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح ہر سچے مومن کو اپنے مال اور اپنی جان کے ذریعہ ہر وقت جہاد میں لگے رہنا چاہئے۔ وہاں اس حدیث میں جہاد کے بہت سے میدانوں میں سے ایک میدان کے متعلق جہاد کا طریق کار بیان کیا گیا ہے۔ یہ میدان قومی اور خاندانی اور انفرادی اصلاح سے تعلق رکھتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بہت سی دینی اور اخلاقی بدیاں اس لئے پھیلتی ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر خاموشی اختیار کرتے ہیں اور ان کی اصلاح کیلئے کوئی قولی یا عملی قدم نہیں اُٹھاتے۔ اس طرح نہ صرف بدی کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے کیونکہ ایک شخص کے برے نمونہ سے بیسیوں مزید آدمی خراب ہوتے ہیں بلکہ لوگوں کے دلوں میں سے بدی کا رعب بھی کم ہونے لگتا ہے۔
ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ قانونی طریق کے علاوہ سوسائٹی میں سے بدی کو مٹانے کے دو ہی بڑے ذریعہ ہیں۔ ایک ذریعہ بزرگوں اور نیک لوگوں کی نگرانی اور نصیحت سے جو بے شمار کمزور طبیعتوں کو سنبھالنے کا موجب ہو جاتی ہے اور دوسرا ذریعہ بدی کا وہ رعب اور ڈر ہے جو سوسائٹی کی رائے عامہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔ اور یہ بھی لا تعداد لوگوں کو بدی کے ارتکاب سے روک دیتا ہے۔ مثلاً ایک بچہ بدصحبت میں مبتلا ہوکر خراب ہونے لگتا ہے۔ مگر اس کے والد یا والدہ یا کسی اور نیک بزرگ کی بروقت نگرانی اور نصیحت اسے گرتے گرتے سنبھال لیتی ہے یا ایک شخص اپنے اندر ایک خاص قسم کی بدی کی طرف میلان پیدا کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ مگر اسے سوسائٹی کا رعب اور بدنامی کا ڈر اس میلان سے روک کر پھیلنے سے بچا لیتا ہے۔ اسی طرح اگر عملی نگرانی یا قولی نصیحت نہ بھی ہو تو نیک لوگوں کی خاموش دعائیں بھی خاندانوں اور قوموں کی اصلاح میں بڑا کام کرتی ہیں پس اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان تینوں قسموں کے موجبات اصلاح کو حرکت میں لاکر مسلمانوں میں بدی کا رستہ بند کرنا اور نیکی کا رستہ کھولنا چاہتے ہیں۔ دنیا میں اکثر لوگ ایسے سست اور غافل اور بے پرواہ ہوتے ہیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کا کوئی عزیز یا دوست یا ہمسایہ برملا طور پر ایک خلافِ اخلاق یا خلافِ دین حرکت کرتا ہے مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور یہ خیال کرکے کہ ہم کسی عزیز یا دوست کا دل میلا کیوں کریں یا ہم کسی سے جھگڑا مول کیوں لیں یا ہمیں دوسروں کے ذاتی اخلاق سے کیا سروکار ہے۔ بالکل بے حرکت بیٹھے رہتیہیں ۔ اور بدی ان کی آنکھوں کے سامنے جڑ پکڑتی اور پودے سے پیڑ سے درخت بنتی چلی جاتی ہے مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ نادان اتنا نہیں سمجھتے کہ جو آگ آج ان کے ہمسایہ کے گھر میں لگی ہے کل کو وہی وسیع ہوکر ان کے اپنے گھر کو بھی تباہ کر دے گی۔
الغرض ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال حکمت اور دُور اندیشی سے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ تم اپنے ارد گرد بدی اور گناہ کی آگ دیکھ کر تماشہ بین بن کر نہ بیٹھے رہو بلکہ اولاً اپنے ہمسایہ کے گھر کواور پھر خود اپنے گھر کو بھی اس آگ کی تباہی سے بچائو اور آپ نے اس تبلیغی اور تربیتی جدوجہد کو تین درجوں میں منقسم فرمایا ہے اوّل یہ کہ انسان کو اگر طاقت ہو تو بدی کو اپنے ہاتھ سے روک دے۔ دوسرے یہ کہ اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ ہو تو زبان کے ذریعہ نصیحت کرکے روکنے کی کوشش کرے۔ اور تیسرے یہ کہ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو پھر دل کے ذریعہ سے روکے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ اس جگہ ہاتھ سے روکنے سے غیر اور لاتعلق لوگوں کے خلاف تلوار چلانا یا جبر کرنا مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس پوزیشن میںہو کہ وہ کسی بدی کو اپنے ہاتھ سے زور سے بدل سکے تو اس کا فرض ہے کہ ایسا کرے مثلاً اگر ایک باپ اپنے بچے کو کسی غلط رستہ پر پڑتا دیکھے یا ایک افسر اپنے ماتحت کو یاآقا اپنے نوکر کو بدی کے رستہ پر گامزن پائے تو اس کا فرض ہے کہ اپنے جائز اقتدار کے ذریعہ اس بدی کا سدباب کرے اور زبان سے روکنے سے نصیحت کرنا یا حسب ضرورت مناسب تنبیہہ کے ذریعہ روکنا مراد ہے اور دل کے ذریعہ اصلاح کرنے سے محض خاموش رہ کر دل میں برا ماننا مراد نہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’دل کے ذریعہ بدلنے یا روکنے ‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں اور یہ غرض ہرگز محض دل میں براماننے کے ذریعہ پوری نہیں ہوسکتی ۔ پس دل کے ذریعہ روکنے سے مراد دل کی دُعا ہے جو اصلاح کا ایک تجربہ شدہ ذریعہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامنشاء یہ ہے کہ اگر ایک انسان کسی بدی کو نہ تو ہاتھ سے روک سکے اور نہ ہی زبان سے روکنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ کم از کم دل کی دعا کے ذریعہ ہی اصلاح کی کوشش کرے اور یہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دل کے ذریعہ روکنے کی کوشش کرنا سب سے کمزور قسم کا ایمان ہے ۔ اس سے یہ مراد ہے کہ محض دل کی دعا پر اکتفا کرنا بہت کمزور قسم کی چیز ہے اصل مجاہد انسان وہی سمجھا جاسکتا ہے جو دل کی دعا کے ساتھ ساتھ خدا کی پیدا کردہ ظاہری تدابیر بھی اختیار کرتا ہے جو شخص محض دُعا پر اکتفا کرتا ہے اور بدی کو روکنے کیلئے کوئی ظاہری تدبیر عمل میں نہیں لاتا۔ وہ دراصل اصلاحِ نفس کے فلسفہ کو بہت کم سمجھا ہے۔ دُعا میں بے شک بڑی طاقت ہے لیکن زیادہ موثر دُعا وہ ہے جس کے ساتھ ظاہری تدبیر بھی شامل ہوتا کہ انسان نہ صرف اپنے قول سے بلکہ اپنے عمل کے ذریعہ بھی خدا کے فضل کا جاذب بن سکے۔
پس تمام سچے مسلمانوں کو چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک ارشاد پر عمل کریں۔ یعنی اگر ان کے سامنے کوئی ایسا شخص بدی کا مرتکب ہو جو ان کا کوئی عزیز یا دوست یا ماتحت ہے تو اسے اپنے ہاتھ سے روک دیں اور اگر کوئی ایسا شخص بدی کا مرتکب ہونے لگے جسے ہاتھ سے روکنا ان کے اختیار میں نہیں۔ بلکہ ہاتھ کے ذریعہ روکنا فتنہ کا موجب ہوسکتا ہے تو اُسے زبان کی نصیحت سے روکنے کی کوشش کریں۔ لیکن اگر اپنی کمزوری یا فتنہ کے خوف کی وجہ سے انہیں ان دونوں باتوں کی طاقت نہ ہو تو پھر کم از کم اس بدی کے استیصال کیلئے دل میں ہی سچی تڑپ کے ساتھ دعا کریں افراد اور خاندانوں اور قوموں کی اصلاح کیلئے یہ تدبیر اتنی مفید اور اتنی مؤثر اور اتنی بابرکت ہے کہ اگر مسلمان اس پر عمل کریں تو ایک بہت قلیل عرصہ میں ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے لیکن بدی کے نظاروں کو تماشے کے رنگ میں دیکھنے والا انسان ہرگز سچا مسلمان نہیں سمجھا جاسکتا۔


Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے