حضور انور رضی اﷲ عنہ نے مؤرخہ27؍مارچ1936ء کے خطبہ جمعہ احرار کی فتنہ انگیزیوں اور اس کے نتیجہ میں اس وقت کی حکومت پنجاب کی طرف سے جماعت احمدیہ کے متعلق منفی رویہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ہم تو ہمیشہ سے امن پسند ہیں اور چاہتے ہیں کہ تفرقہ و فساد نہ ہو۔ہمیں نہ مسلمانوں سے دشمنی ہے نہ ہندوؤں،سکھوں اور عیسائیوں سے ،ہم ہر ایک کے دوست بن کر رہنا چاہتے ہیں مگر کوئی امن سے رہنے بھی تو دے۔لیکن باوجود ہماری طرف سے امن پر قائم رہنے کے اگر حکومت رویہ نہ بدلے تومیں اسے کہوں گا کہ فتنہ کو کم سے کم حلقہ میں محدود کرنے کے لیے اسے چاہیے کہ جماعت پریہ بات کھول دے کہ اقتصادی طور پر اسے حکومت سے کوئی فائدہ اٹھانے کا حق حاصل نہ ہو گا۔اس سے بھی بہت سی تلخی دور ہو جائے گی کیونکہ امید کے بعد ناامیدی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے لیکن جب کوئی سمجھ لے کہ میرا کوئی حق نہیں تو اس کا شکوہ بھی کم ہو جاتاہے۔ اسے چاہیے کہ یہ اعلان کر دے کہ آئندہ سرکاری ملازمتوں میں احمدیوں کو نہیں لیا جائے گا۔ہماری جماعت کے لوگوں کو ایسے اعلان سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں۔ لاکھوں تدبیریں ہیں جو اختیار کی جا سکتی ہیں۔اگر ملازمتوں کے دروازے گورنمنٹ بند کرے تو ہمارے نوجوان تجارت وغیرہ کی طرف متوجہ ہونے پرمجبور ہوں گے۔
اس وقت دو نہایت زبردست حکومتیں ہندوستان میں اپنے تعلقات وسیع کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہیں اور وہ غیر معمولی مدد دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔مثلاًوہ اس بات پر تیار ہیں کہ تجارتی مال دیں مگر اس کے بدلہ میں روپیہ نہ لیں بلکہ ہندوستانی مال مثلاً گیہوں لے لیں یا کپاس لے لیں اس طرح تجارت میں بہت کچھ سہولت پیدا ہو گئی ہے ۔بے شک ابتدا میں ناتجربہ کاری کی وجہ سے تکلیف ہو گی مگر خطرات میں پڑے بغیر انسانی اخلاق میں مضبوطی نہیں پیدا ہوتی۔عقل مند ان تکلیفوں کو بھی خدا تعالیٰ کی رحمت سمجھا کرتے ہیں اگر اس تجربہ میں ہمارے نوجوان کامیاب ہو گئے تو وہ اپنی روزی کمانے کے ساتھ ساتھ ان افسروں کو بھی سزادے دیں گے جو ہمیں ناحق دکھ دیتے ہیں کیونکہ اس طرح لاکھوں کی تجارت انگلستان کے ہاتھ سے نکل کر دوسری قوموں کے ہاتھ میں چلی جائے گی بلکہ میں کہتاہوں کہ دوسری قوموں سے تجارتی تعلق پیدا کرنے سے بھی زیادہ مفید یہ ہے کہ خود صنعت و حرفت کی طرف ہماری جماعت توجہ کرے تاکہ ہر قسم کے سیاسی اثر سے محفوظ ہو جائے۔ گزشتہ جدوجہد کے زمانہ میں یہ امر ثابت ہو گیا ہے کہ زمیندار افسروں سے زیادہ مرعوب ہوتاہے بہ نسبت تاجروں کے۔
پس تجارت اور صنعت وحرفت کی طرف ہماری جماعت کو زیادہ توجہ چاہیے تاکہ کسی کی محتاجی باقی ہی نہ رہے۔ خود صنعت و حرفت کی طرف توجہ کرے اور تجارت غیر ملکوں سے بڑھانے کی کوشش کرے جو قانوناً جائز فعل ہے۔کوئی قانون ہمیں اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ ہم ضرور انگریزی مال لیں، بے شک ہم بائیکاٹ کے مخالف ہیں مگربغیر بائیکاٹ کیے کے کوئی دوسرا طریق اختیار کرنا تو منع نہیں۔اگر ہم ایسا کرنے لگیں تو کانگرس بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جائے گی۔کانگرس میں اس وقت کوئی تنظیم نہیں اگر ہم ایک تنظیم کے ساتھ یہ کام کرنے لگیں تو ہزاروں ہندو اور سکھ ہم سے مل جائیں گے اور قانون شکنی کا خیال لوگ بھلا دیں گے اور اس طرح بالواسطہ طور پر بھی حکومت کی ایک خدمت کردیں گے اور ساتھ ہی قانون کے اندر رہتے ہوئے خود نفع کماتے ہوئے ہم اپنے حقوق بھی حاصل کر سکیں گے اور یہ صرف ایک ہی طریق نہیں ایسے بیسیوں طریق ہیں جن سے جماعتیں اپنے آپ کو ملازمتوں سے آزاد کرسکتی ہیں۔جب ملازمتوں کے راستے بند ہوں تو خود بخود ہماری جماعت کے دماغ دوسری راہوں کی دریافت اور ان پر چلنے کی طر ف متوجہ ہوں گے مگر ہم صبر کا دامن نہیں چھوڑیں گے اور خوامخواہ حکومت کے لیے مشکلات پیدا نہیں کریں گے کہ اور کوشش کریں گے کہ چند افسروں کی وجہ سے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا موجب نہ بنیں مگر جو سلوک ہم سے کیا جا رہا ہے نہایت تکلیف دہ ہے اور میں نہیں سمجھ سکتاکہ آخر کب تک ہم ان باتوں کو برداشت کرتے چلے جائیں گے۔کب تک ہم اپنے امن کو برباد ہوتا دیکھیں گے۔ یقینا ایک وقت آئے گاجب مجبور ہو کر ہمیں ان ذرائع کو اختیار کرنا پڑے گا جو ہمیں ان تکالیف سے بچائیں۔ اس لیے میں ایک دفعہ پھر حکومت کو توجہ دلاتاہوں کہ وہ اب بھی اپنے رویہ پر غور کریں ۔ہم اس بات پر تیار ہیں کہ اس سے صلح کر لیں مگر اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بڑی بڑی باتوں میں ہماری شکایتوں کو دور کرے۔
آج حکومت اپنے آپ کو ہماری مدد سے مستغنی سمجھتی ہے مگر میں اس نگاہ سے دیکھ رہا ہوں جس نگاہ سے وہ نہیں دیکھ رہی کہ حکومت کو پھر مشکلات پیش آنے والی ہیں اور آسمان سے خدا تعالیٰ یہ ثابت کر دے گا کہ کل کو یہی حکومت پھر ہماری مدد کی محتاج ہو گی پھر کل کے افسر ہمیں کہیں گے کہ آؤ اور ہماری مدد کرواور پچھلے افسروں کے رویہ کو نظر انداز کر دومگر میں انہیں بتا دینا چاہتاہوں کہ اگر آج انہوں نے ہماری شکایات کو دور کرنے کی کوشش نہ کی تو کل ان کا ہمیں اپنی مدد کے لیے بلانا بیکار ثابت ہو گا اور ہم قانون شکنی سے بچتے ہوئے اپنی جماعت کی معیشت کے لیے دوسرے ذرائع انشاء اﷲ نکالیں گے جن کو اختیار کر کے ہم حکومت کی مہربانیوں سے آزاد ہو جائیں گے مگر ہم چھپ کر کوئی کام نہیں کریں گے بلکہ کھلے بندوں کریں گے، علی الاعلان کریں گے اور حکومت کے قانون کے اندر رہ کر کریں گے یہاں تک کہ انگریزوں کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان باتوں میں کوئی حرج نہیں اور اگر وہ ہم کو ان ذرائع کے اختیار کرنے سے روکیں تو ملک میں بھی شورش برپا ہو جائے گی اور دنیامیں بھی ان کی بدنامی ہو گی۔ انگریزی فطرت کو ہم جانتے ہیں وہ کھلی بے انصافی کو بھی برداشت نہیں کر سکتی۔پس ہم اس سے یہ امید نہیں کر سکتے کہ وہ خود ہی قانون بنائے اور ان کے اندر رہ کر کام کرنے والوں کے خلاف کارروائی کر کے بے انصاف بن جائے۔
میں پھر ایک طرف حکومت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ انصاف سے کام لے اور ان فتنہ انگیزوں کو روکنے کی طرف متوجہ ہو اور دوسری طرف جماعت سے بھی کہتا ہوں کہ وہ زیادہ تر نوکریوں کی طرف توجہ نہ کرے بلکہ تجارت،زراعت اور صنعت و حرفت کے کاموں کو اختیار کرے ،مگر بعض بیو قوف ایسے ہیں جو اب تک مجھے لکھتے رہتے ہیں کہ فلاں افسر کے پاس ہماری سفارش کر دیں ۔نا معلوم وہ لوگ میرے خطبے پڑھتے ہیں یا نہیں پڑھتے اور اگر پڑھتے ہیں تو سمجھتے کیوں نہیں ۔میں متواتر جماعت کو بتا رہا ہوں کہ حکومت کے بعض افسر ہمارے امن کو برباد کر رہے ہیں۔وہ ہماری کسی بات پر کان نہیں دھرتے بلکہ ہمیں نقصان پہنچانے اور ہماری طاقت کو توڑنے کی کو شش کر رہے ہیں ،مگر وہ احمق مجھے لکھتے ہیں کہ ہماری سفارش کر دیں ۔میں نے تم کووہ راستہ بتا دیا ہے جس پر تم اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہو اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور گرو اور اس سے دعائیں کرو ،جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اس پیر سے روزے رکھو مگر معلوم نہیں تمہیں کیا عادت ہو گئی ہے تم خدا تعالیٰ کی بجائے بندوں کے پاس جانا پسند کرتے ہو۔
نوکریوں کی نسبت تجارت میں رزق زیادہ ہے
میں تمہیں نوکریوں سے منع نہیں کرتا بے شک تم اچھی سے اچھی ملازمت کے لیے کو شش کرو لیکن یہ سمجھ لو کہ سب لوگوں کو نوکریاں نہیں مل سکتیں اس لیے علاج یہی ہے کہ تم اپنا رزق خدا سے مانگو۔وہ معمولی معمولی کاموں میں بھی بعض دفعہ اتنی ترقی دے دیتا ہے کہ لوگ رشک کی نگاہوں سے دیکھنے لگ جاتے ہیں ۔پس تم قربانیوں کے لیے تیار ہوجاؤ اور اس بات پر آمادہ رہو کہ اگر تمہیں بھوکا رہنا پڑے، پیاسا رہنا پڑے،ننگا رہنا پڑے تب بھی تم ان تکالیف کو برداشت کرو گے ۔جب یہ روح پیدا کرو گے تو اﷲ تعالیٰ غیب سے خود بخود تمہارے لیے کئی راستے کھول دے گا۔
تام چینی کے برتن جس شخص نے بنائے ہیں وہ پہلے نواب تھا ،لاکھوں روپیہ کا مالک تھا مگر جب اس نے یہ کام شروع کیا تو اپنا سارا روپیہ اس نے خرچ کر دیا مگر پھر بھی کامیاب نہ ہوا۔اس کے بعد اس نے بیوی کے زیور بیچنے شروع کر دیے،وہ روپیہ ختم ہوا تو دوستوں اور رشتہ داروں سے قرض لے کر کام کرناشروع کر دیا ۔جب با لکل اس کی آخری نوبت پہنچ گئی تو بیس سال کی محنت ،تلاش اور جستجو کے بعد وہ تام چینی کے برتن بنانے میں کامیاب ہوا اوراس کے بعد اسی کام سے وہ کروڑ پتی ہو گیا۔
پس صنعت و حرفت کرو اور اپنی ہمتوں کو بلند کرو ۔تجارت اور صنعت و حرفت کے ذریعہ اس قدر آمد ہوتی ہے کہ نوکریوں میں اتنی آمد نہیں ہوتی ۔میں یہ نہیں کہتا کہ نوکریاں نہ کرو ۔جب تک حکومت روک نہیں دیتی اس وقت تک بے شک نوکریاں کرو لیکن روک دے تو گھبراؤ نہیں بلکہ کہہ دو،
مُلکِ خدا تنگ نیست پائے گدا لنگ نیست
خدا تعالیٰ نے دنیا کو نہایت وسیع بنایا ہے۔ایک جگہ اگر راستہ بند ہو تو وہ دوسر ی جگہ رزق کا راستہ کھول دیتا ہے اور ہمارا رزق تو خداتعالیٰ کے عرش پر موجود ہے اور اُسی نے ہمیں دینا ہے پس اسی سے مانگو اور دعائیں کرو ۔میں نے کوشش کی ہے کہ محبت،پیار،نرمی اور دلائل سے حکومت پر تمام باتیں واضح کر دوں لیکن اگر باوجوداس کے حکومت ہماری شکایتوں کو دور کرنے کے لیے تیار نہ ہوتو دنیا گواہ رہے کہ ہم نے امن قائم کرنے اور حکومت سے تعاون کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے لیکن حکومت نے ہماری طرف محبت کا ہاتھ نہیں بڑھا یا۔اس کے بعد بھی اگرچہ میں کوشش کروں گا کہ ہماری طرف سے حکومت کے ساتھ تعاون ہو لیکن اگر اس حد تک تعاون نہ ہو سکے جس حد تک کہ ہم پہلے تعاون کرتے تھے تو آئندہ آنے والے افسروں کا یہ حق نہیں ہو گا کہ وہ ہم سے سوال کریں کہ تم کیوں اب گزشتہ کی طرح تعاون نہیں کرتے کیونکہ آخر پچھلے لوگ پہلوں کے ہی وارث ہوا کرتے ہیں۔‘‘
جواب دیں